ترجیحی بنیادوں پر امیدواروں کا انتخاب: امریکی سیاسی نظام میں نیا انقلاب

ترجیحی بنیادوں پر امیدواروں کا انتخاب: امریکی سیاسی نظام میں نیا انقلاب

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ رینک چوائس ووٹنگ یعنی ترجیحی بنیادوں پر ووٹنگ کا عمل ، نیویارک سٹیٹ میں بھی دیگر کئی ریاستوں کی طرح رینک چوائس ووٹنگ کا قانون منظور ہو چکا ہے اور اس سال نیویارک میں خصوصی الیکشن اور میئر کے پرائمری انتخابات میں اسی قانون کے تحت ووٹرز اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے، عام طور سے ووٹرز الیکشن میں کسی ایک امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں مگر رینک چوائس ووٹنگ یعنی درجہ بندی کی بنیاد پر ترجیحی امیدوار کیلئے ووٹنگ کے اس طریقہ کار کے دوران ووٹرز اپنی ترجیح کی بنیاد پر پانچ امیدواروں کے آگے ترتیب سے نشان لگا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ جس امیدوار کو سب سے زیادہ ترجیح دیں گے اس کے آگے نمبر 1 اور اسی طرح ترجیحی بنیادوں پر دیگر چار امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ رینک چوائس ووٹنگ یا درجہ بندی پسند ووٹنگ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ ووٹنگ زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو انتخابات لڑنے کا موقع فراہم کرے گا اسی طرح ووٹرز کو انتخابی عمل سے منسلک ہونے کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔
مختلف جائزوں اور سٹڈیز سے معلوم ہوا ہے کہ جہاں جہاں رینک چوائس ووٹنگ کے تحت انتخابات منقعد کرائے گئے وہاں زیادہ خواتین اور مختلف رنگ و نسل کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ نظام عملی طور پر اس بات کی گارنٹی یا ضمانت دیتا ہے کہ کامیاب امیدوار اکثریتی ووٹرز کے کم از کم دوسرے یا تیسرے نمبر کے انتخاب یا ترجیح تھے۔ جبکہ ماضی میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔ سابقہ نظام کے تحت نیویارک سٹی میں ایسے امیدوار بھی میئر بنے ہیں جنہوں نے پرائمری میں بمشکل تمام 40 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے جو کہ یقینا دیگر امیدواروں سے زیادہ ہوتے ہیں۔

(رینک چوائس ووٹنگ کیلئے ووٹوں کا شمار کیسے ہو گا)
ترجیحی بنیادوں پر ووٹنگ کا طریقہ ووٹرز کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند اور ترجیح کی بنیاد پر 5 امیدواروں کو ووٹ دیں گے، اگر کوئی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر گیا تو وہ کامیاب قرار پائے گا / پائے گی کسی نے 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کئے تو دوبارہ الیکشن ہونگے اس کے لئے بورڈ آف الیکشن کم سے کم ایک ہفتہ انتظار کرے گا تا کہ غیر حاضر یا بذریعہ ڈاک ووٹوں کا شمار کیا جا سکے۔ پہلے مرحلہ میں کمتر ووٹ حاصل کرنے والوں کے ووٹ پہلے دو امیدواروں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔ کسی امیدوار کے 50 فیصد یا زائد ووٹ حاصل کرنے تک انتخابی عمل یا ووٹنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔

(رینک چوائس ووٹنگ کو امریکہ بھر میں مقبولیت)
محض چند ماہ قبل تک امریکہ کے عوام ترجیحی بنیادوں پر درجہ بندی ووٹنگ ” رینک چوائس ووٹنگ“ سے لاعلم تھے۔ مگر اب امریکہ بھر میں اس طریقہ انتخاب کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ ایک سٹڈی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی کم و بیش 29 ریاستوں میں قانون ساز اس طریقہ ووٹنگ کو رائج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ نواڈا، ہوائی، کینساس اور وائمنگ میں 2020 کی ڈیموکریٹک پرائمری میں ترجیحی درجہ بندی ووٹنگ کے تحت ووٹرز اپنے ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔ الاسکا میں بھی یہ نظام رائج ہو چکا ہے۔نیویارک میں 22 جون کے پرائمری الیکشن میں رینک چوائس ووٹنگ کے تحت ووٹنگ ہو گی۔ تا ہم نومبر الیکشن میں موجودہ نظام کے تحت ہی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ورماؤنٹ، نیوچرسی، کنٹیکٹ اور میسا چوسٹسس میں رینک چوائس ووٹنگ کیلئے بل زیر غور ہیں۔

نیوریاک سٹی کے مئیر کے لئے دو امیدواروں کا نئے نظام پر سوال
•••••••••••••••••••••••••••٭
نیویارک سٹی کے میئر کیلئے دو امیدواتحفظات کا اظہار کرچکے ہیں
نیویارک سٹی کیلئے اس سال بہت اہم ہے نومبر میں میئر کے الیکشن ہونگے۔ قابل ذکر امیدوار میں سے ایک بروکلین بورو کے صدر ایرک ایڈمز کا کہنا ہے کہ رینک چوائس ووٹ کیلئے جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے ان کا کہنا ہے کہ کم آمدنی والے علاقے میں نئے نظام کے بارے اس بارے میں آگہی کی ضرورت ہے۔ ایک اور امیدوار افریقی امریکی بزنس ایگزیکٹو ریمنڈ میگوائر نے بھی نئے ووٹنگ سسٹم پر سوال اٹھایا ہے، انہوں نے کہا کہ مناسب تعلیم اور شعور کے بغیر رینک چوائس ووٹنگ کو لاگو کرنے سے سیاہ فام اور دیگر رنگدار نسلوں کے ووٹ متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کی اکثریت حق رائے دہی سے متاثر ہو سکتی ہے۔

(نیویارک سٹی کے 74 فیصد باسی نئے نظام کے حامی )
نیویارک سٹی کے 74 فیصد ووٹرز رینک چوائس ووٹنگ کی حمایت کر چکے ہیں، تا ہم تنقید کاروں کا کہنا ہے کہ مسائل سے دوچار نیویارک سٹی کے لئے نئے نظام سے نمٹنا آسان نہ ہو گا۔ وہ بھی کورونا جیسے گھمبیر ماحول میں رینک چوائس ووٹنگ کو اپنا قبل از وقت ہو گا۔کامن کاز نیویارک سٹی اور رینک دی ووٹ NYC کے مشترکہ پول سروے کے مطابق نیویارک سٹی کونسل کے 23 اور 24 ڈسٹرکٹس کے 94 فیصد ووٹرز نے رینک چوائس ووٹنگ کو سادہ اور آسان قرار دیا ہے۔فروری 2021ءمیں نیویارک سٹی کے سب سے ڈائیورس بورو کوئنز میں نئے ووٹنگ سسٹم کے تحت ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں اور عام تصور یہی ہے کہ انہیں کسی قسم کا ایشو درپیش نہیں ہوا۔

  •اس سال پرائمری الیکشن میں پہلی بار نیویارک سٹی میں نئے ووٹنگ سسٹم کا تجربہ کیا جائے گا

اس سال نیویارک سٹی میں جون کے پرائمری انتخابات میں رینک چوائس ووٹنگ یعنی درجہ بندی پسند ووٹنگ نظام کے تحت ووٹ ڈالے جائیں گے۔ نیویارک سٹی کے ووٹرز پہلی بار ترجیحی بنیادوں پر ووٹرز کو درجہ بندی کے طور سے ووٹ دیں گے۔ تا ہم نومبر کے عام انتخابات میں موجودہ نظام کے تحت ووٹ ڈالے جائیں گے۔

ارم حنیف ERUM HANIF (چیف ایگزیکٹو آفیسر CEO) اور بورڈ ممبر: اپنا بروکلین کمیونٹی سینٹر)
ارم حنیف کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ نیویارک سٹی کے تحت رینک چوائس ووٹنگ کا نظام اچھا ہے۔ حال ہی میں خصوصی الیکشن میں بھی نئے نظام کے تحت ووٹ کاسٹ کئے جا چکے ہیں۔ نیویارک سٹی میں 22 جون کے پرائمری انتخابات میں بھی ووٹرز نئے نظام یعنی درجہ بندی پسند کے تحت ووٹ ڈالیں گے۔ نئے نظام کے تحت کوئی بھی ایک امیدوار وہ صرف مخصوص لوگوں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ بلکہ اسے ہر کمیونٹی کے پاس جانا ہو گا سب کی باتیں سننا ہونگی اور اپنے بارے میں بتانا ہو گا۔ اسی طرح ہر کمیونٹی کو امیدواروں کی باتیں ان کے پروگراموں و منصوبوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا.یوں ووٹرز امیدواروں کے بارے میں بہتر طور پر جان پائیں گے اور وہ اپنی ترجیح کے مطابق ووٹ دے سکیں گے کہ کون نمبر ون، نمبر دو اور دیگر پوزیشنوں کے حقدار ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی ایک امیدوار کی کسی ایک پالیسی پر اتفاق کرتے ہوں دوسری پالیسی کو قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ووٹرز کے ہم کسی بھی امیدوار کو اس بنیاد پر رینک کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری ترجیح میں کس درجے پر ہے۔ ارم حنیف کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے نظام سے ووٹنگ میں آسانی پیدا ہو گی۔ ووٹرز کو زیادہ اختیار حاصل ہو گا۔ اس عمل میں جو سب سے کم ووٹ حاصل کرے گا وہ بیلٹ سے خود بخود خارج ہو گا۔ اس کے تمام ووٹ دوسری چوائس کے امیدوار کو مل جائیں گے۔ جبکہ چوتھے نمبر کے امیدوار کو بھی خارج کر کے اس کے ووٹ ووٹرز کی پہلی چوائس کے امیدوار کو مل جائیں گے۔ بعدازاں پہلے دو رینک کے امیدوار رہ جائیں گے اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ پہلی چوائس کا امیدوار شکست کھا جائے اور ابتدائی ووٹنگ میں دوسرے نمبر پر رہنے والا امیدوار فاتح قرار دیا جائے۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہو گا جب پہلی ووٹنگ میں کوئی بھی امیدوار 50 فیصد یا زائد ووٹ حاصل نہ کر پائے۔ ارم حنیف نے کہا کہ ووٹنگ کا نیا نظام قدرے پیچیدہ ہے۔ اگر ووٹرز نے بیلٹ کو مکمل کرنے میں غلطی کر دی یعنی پہلی تین چوائس میں ایک ہی امیدوار کا انتخاب کیا تو ان کا ووٹ یا بیلٹ مسترد قرار پا جائے گا۔ لہٰذا ہماری کمیونٹی میں نئے نظام کے بارے میں آگہی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ شعور دینا ہو گا۔ اگر بیلٹ سہی طریقے سے پُر نہ کیا گیا تو ووٹ ضائع ہو جائیں گے۔
Syed Adnan Bukhari (Grassroot Community Organizer)
سید عدنان بخاری کمیونٹی ایکٹوسٹ اور پولٹیکل سائنٹسٹ کے طور پر پاکستانی امریکن کمیونٹی میں امریکہ کے سیاسی و انتخابی نظام کے بارے میں شعور آگاہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تارک وطن اور اقلیتی کمیونٹی کے نکتہ نظر سے وہ رینک چوائس ووٹنگ (RCY) کے حامی ہیں، اس نظام کے سہی استعمال اور عمل درآمد سے رنگدار نسلوں، خواتین اور دیگر اقلیتی امیدواروں کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوری نکتہ نظر سے وہ اسے ایک اچھا نظام سمجھتے ہیں۔ تا ہم اس نظام کا انحصار اس بات پر ہے کہ ووٹرز ترجیحی چوائس کے بارے میں کس قدر واقفیت رکھتے ہیں یا وہ اس نظام کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ وہ بڑی ذہانت کے ساتھ مختلف امیدواروں کو درجہ بندی اور اپنی ترجیح کے مطابق ووٹ دے سکتے ہیں۔ تا ہم جنوبی ایشیائی ووٹرز کو نئے نظام کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے اس کا تجربہ نیویارک سٹی کونسل ڈسٹرکٹ 24 کے خصوصی الیکشن میں ہو چکا ہے۔ جہاں جنوبی ایشیائی امیدواروں کے مقابلہ میں ایک سفید فام امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ حالانکہ ڈسٹرکٹ 24 نسبتاً زیادہ اقلیتی آبادی والا علاقہ ہے۔ لہٰذا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ RYC نظام اس صورت میں اچھا ہے جب ووٹرز امیدواروں کے ساتھ منسلک ہونگے اور انہیں زیادہ شعور و آگہی حاصل ہو۔ نیویارک میں اوسطاً امریکن پاکستانی ووٹرز (جن میں مزدور طبقہ یا مڈل کلاس پروفیشنلز کی اکثریت ہے) اب بھی مکمل طور پر سیاسی نظام کا حصہ نہیں بن پائے ہیں۔ ان کی اکثریت کانگریشنل اور صدارتی انتخابات میں بھی دلچسپی لیتی ہے۔ جبکہ لوکل انتخابات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے یہ تو واضح نہیں مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی مجہے کہ پاکستانی امریکن کمیونٹی کی ایک معقول تعداد اب بھی پاکستانی سیاست اور وہاں کے نظام میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہاں کی شخصیت کے ساتھ منسلک رہنا پسند کرتے ہیں۔ انہیں امریکہ کی مقامی سیاست اور سیاستدانوں کی اہمیت کا علم نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی نظام بہت مختلف ہے۔ عدنان بخاری کاکہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی میں رینک چوائس ووٹنگ کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں روزمرہ کی باتوں میں اس نظام کو بھی موضوع بنانا چاہئے۔ اس ضمن میں پاکستانی امریکن پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں