نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

اسلام آباد: (آوازنیوز) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے نورمقدم قتل کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا، عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھی ہے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے مختصر فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ظاہر جعفر کے خلاف قتل کی دفعات میں سزائے موت برقرار رکھی ہے، ریپ کیس میں سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے جبکہ اغوا کے مقدمہ میں 10 سال قید کو کم کر کے ایک سال کر دیا گیا ہے، عدالت نے نور مقدم کے اہل خانہ کو معاوضہ ادائیگی کا حکم بھی برقرار رکھا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ظاہر جعفر کے مالی اور چوکیدار کی سزاؤں میں بھی کمی کر دی گئی، مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار جتنی سزا  کاٹ چکے وہ کافی ہے۔قبل ازیں سپریم کورٹ میں جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی، ظاہِر جعفر کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نور مقدم کے والد سابق سفارتکار شوکت مقدم کی جانب سے ایڈووکیٹ شاہ خاور عدالت میں موجود تھے۔ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر نے سماعت کے آغاز میں دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے، اپیل کنندہ کیخلاف شواہد کا شک و شبہ سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔وکیل سلمان صفدر نے مزید کہا کہ عدالت بطور شواہد پیش فوٹیجز سے باہر نہیں جا سکتی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پراسیکیوشن کی فوٹیج چلائی گئی لیکن وہ چل نہ سکی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں وکیل کی فراہم کردہ یو ایس بی سے ویڈیو چلائی گئی۔ملزم ظاہر جعفر کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد شریک ملزم چوکیدار اور مالی کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ دونوں ملزموں کو 10، 10 قید کی سزا سنائی گئی، ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے مقتولہ کو جانے سے روکا۔جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ اگر مجرمان مقتولہ کو نہ روکتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا جس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ مالی اور چوکیدار کا گھر میں موجودگی کے علاوہ اور کوئی جرم نہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ تنخواہ سے زیادہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔بعدازاں چوکیدار اور مالی کے وکیل نے دلائل مکمل ہونے پر نور مقدم کے والد کے وکیل شاہ خاور نے دلائل کا آغاز کیا تاہم عدالت نے دیگر کیسز کے باعث سماعت میں وقفہ کر دیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں اور ان پر دلائل دینے کی ضرورت نہیں، مجرم اور مقتولہ ایک ساتھ رہتے تھے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، دونوں کے درمیان ایسا رشتہ تھا جو یورپ میں عام ہوتا ہے مگر یہاں نہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنے کا رشتہ ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے اور اس قسم کا رشتہ نہ صرف مذہب بلکہ اخلاقیات کے بھی خلاف ہے، نور مقدم خود اُس گھر میں آئی تھی، کیا اس سے اغواء کی سزا کم ہو جاتی ہے؟انہوں نے واضح کیا کہ اگر سی سی ٹی وی ویڈیو نہ بھی ہو تو نور مقدم کی نعش کا مجرم کے گھر سے ملنا ہی کافی ہے۔جسٹس باقی نجفی نے سوال اٹھایا کہ کیا نور مقدم کا موبائل فون ریکور کیا گیا؟ اس پر پراسیکیوشن کے وکیل شاہ خاور نے جواب دیا کہ کال ریکارڈ تو موجود ہے لیکن موبائل فون تحویل میں نہیں لیا گیا۔بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر اپیلوں پر فیصلہ سنا دیا اور نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا۔واضح رہے کہ 27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر جعفر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی، 24 فروری 2022 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنا دی تھی۔عدالت نے مختصر فیصلے میں ظاہر جعفر کو قتل عمد کے سلسلے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی اور نور مقدم کے ورثا کو 5 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ 21 دسمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا اور چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے فیصلہ سنایا تھا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کرتے ہوئے شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر دی تھیں جنہیں ٹرائل کورٹ نے 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا بھی سزائے موت میں تبدیل کر دی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کو 2 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں