اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مصدق ملک نے انکشاف کیا ہے کہ قدرتی آفات کے دوران عام لوگوں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں تاکہ طاقتور افراد کے ریزورٹس محفوظ رہ سکیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں طاقتور طبقے کے مفادات کے تحفظ کی خاطر غریب عوام کو قربانی دینا پڑی۔ ان کے مطابق دریا کنارے عام شہریوں کو زمین نہیں ملتی لیکن بااثر شخصیات کے عالی شان ریزورٹس موجود ہیں، جو ہر حال میں بچا لیے جاتے ہیں۔
ایلیٹ کلچر اور معاشرتی ناانصافی
مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان میں ایلیٹ کلچر نے معاشرتی ناانصافی کو جنم دیا ہے۔ غریبوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے مگر طاقتور افراد کے ریزورٹس اور زرعی زمینیں بچا لی جاتی ہیں۔
پانی کے مسئلے پر صوبوں میں عدم اعتماد
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ڈیمز اور نہروں کے معاملے پر صوبوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔
- بلوچستان کو شک ہے کہ اس کا پانی روک لیا جاتا ہے۔
- سندھ کو پانی ملتا ہے مگر وہ آگے نہیں دیتا۔
اسی عدم اعتماد کے باعث کوئی اتفاقِ رائے سامنے نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا مستقل حل جدید ٹیلی میٹری سسٹم ہے، جو ایک سے ڈیڑھ سال میں مکمل ہو جائے گا۔
دریاؤں اور کھیتی باڑی پر قبضہ
مصدق ملک نے انکشاف کیا کہ دریاؤں کے بیچوں بیچ بعض افراد نے کھیتی باڑی کر رکھی ہے، لیکن اصل فائدہ ہمیشہ بااثر طبقے کو پہنچتا ہے۔ صرف چند افراد کے ریزورٹس کو محفوظ بنانے کے لیے درجنوں غریب بستیاں تباہ کر دی جاتی ہیں۔
سیلابی خطرات اور ممکنہ تباہی
وفاقی وزیر نے خبردار کیا کہ سرگودھا پہلے ہی سیلاب کی لپیٹ میں آنا شروع ہو چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ جب پنجند کے مقام پر تمام دریا اکٹھے ہوں گے تو پانی کا ریلا 10 لاکھ کیوسک تک جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پیشگی اطلاع پر لوگوں اور مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے لیکن بعض دیہات میں لوگ اپنی زمینیں اور گھروں کو چھوڑنے سے انکار کرتے ہیں۔ ایک گاؤں کے 30 افراد نے بھی جانے سے انکار کیا مگر منت سماجت کے بعد انہیں نکالا گیا، اور آج وہ علاقہ مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
مستقل حل کی ضرورت
مصدق ملک نے واضح کیا کہ اگر تحصیل اور ڈسٹرکٹ سطح پر پانی کے ذخائر نہ ہوں تو کوئی مستقل حل ممکن نہیں۔ اس لیے ہر علاقے میں فطری ذخائر بنانے ضروری ہیں تاکہ آئندہ آنے والے سیلابی خطرات سے بچا جا سکے۔