اسلام آباد: (آوازنیوز) سپریم کورٹ میں جاری مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی نمائندگی پر سوال اٹھا دیا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کیس کی براہ راست سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آ گئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ نظر ثانی کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت؟ آپ کو تو اس کی حمایت کرنی چاہیے تھی، جس پر فیصل صدیقی نے کہا ہمارا انداز محبت والا ہے، ہم ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔وکیل فیصل صدیقی نے نشاندہی کی کہ ایسا بنچ نظرثانی سن رہا ہے جس میں ججز کی اکثریت نے اصل کیس سنا ہی نہیں ، میں اسی لئے اپنے دلائل ذرا تفصیل سے دوں گا، پورا پس منظر بتاؤں گا مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا کیسے تھا، 13 میں سے 11 ججز نے کہا نشستیں پی ٹی آئی کی بنتی ہیں، یہ آٹھ ججز کا نہیں، گیارہ ججز کا فیصلہ تھا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی لیکن صرف اقلیتی فیصلے کیخلاف دائر کی گئی۔جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے نظرثانی درخواست میں جسٹس مندوخیل کے فیصلے پر انحصار کیا گیا، میں اپنی سات گزارشات عدالت کے سامنے رکھوں گا، پہلے اسی اعتراض کا جواب دوں گا پی ٹی آئی فریق نہیں تھی تو ریلیف کیسے دیا گیا۔ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ مخدوم علی خان نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست پشاور ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں تھی، عدالت کے سامنے مقدمہ کے حقائق رکھتا ہوں۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا یا سپریم کورٹ کا؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تو صرف تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کا مقدمہ تھا۔ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے عدالت میں اکثریتی فیصلہ کے پیرا گراف پڑھ کر سنائے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ حقائق پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کے دوران بھی تحریک انصاف نے سرٹیفکیٹس جمع کرائے۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں مانے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے نشان چھین لیا، یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے تنازع شروع ہوا۔جسٹس امین الدین خان نے وکیل سنی اتحاد کونسل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سر یہ حقائق نہیں بتاؤں گا تو نئے ججز کو تنازع سمجھ نہیں آئے گا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف بطور جماعت ماننے سے انکار کر دیا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو پی ٹی آئی کا ماننے سے انکار کر دیا، پی ٹی آئی امیدواروں کو مختلف انتخابی نشان جاری کئے گئے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے چیلنج کیا، اس کا ذکر رپورٹڈ فیصلے میں ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھا پارٹی برقرار تھی، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ دس ججز نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی نے فیصلے کی غلط تشریح چیلنج کی؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے ریٹرننگ افسر کا فیصلہ چیلنج کیا تھا، ریٹرننگ افسر نے سلمان اکرم راجہ کو پی ٹی آئی امیدوار تسلیم نہیں کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو کیس ریمانڈ کر دیا گیا، کیا سلمان اکرم راجہ نے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی تھی؟جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہے۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بچی ہوئی مخصوص نشستیں دوبارہ انہی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا، کمیشن کے ایک رکن نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، ایک رکن نے کہا تھا آئینی ترمیم تک یہ نشستیں خالی رکھی جائیں، سنی اتحاد کونسل نے فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، پشاور ہائیکورٹ سے معاملہ سپریم کورٹ پہنچا، 13 جنوری 2024 کو انتخابی نشان الاٹ ہونے کی آخری تاریخ تھی، یہ ذہن میں رکھیے کہ اسی دن سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا کیس رکھا تھا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اور وہ کیس رات گئے تک چلتا رہا تھا، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جی! اور اسی دوران الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو پارٹی ماننے سے انکار کر دیا، پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے والوں کو آزاد قراردیا گیا، تحریک انصاف نے پی ٹی آئی نظریاتی کیساتھ ملکر ایک سیٹلمنٹ کی، نظریاتی کے سربراہ ٹی وی پر آئے اور کہا وہ ایسی کوئی سیٹلمنٹ نہیں کر رہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے درخواست دائر کی، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام نے درخواستیں دائر کیں، درخواستوں میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں، ان جماعتوں نے درخواست میں یہ بھی کہا یہ مخصوص نشستیں ہمیں دی جائیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصل کیس تھا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ حالانکہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی سے نشستیں مل چکی تھیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قومی اور صوبائی اسمبلی کی 78 نشستیں ہیں جن پر تنازع ہے، اگر یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دے دی جائیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ متنازعہ دو تہائی اکثریت ہوگی۔جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ سنی اتحاد کے وکیل ہیں یا پی ٹی آئی کے؟ کیا آپ کو پی ٹی آئی نے اتھارٹی دے رکھی ہے کہ ان کی طرف سے بھی بولیں؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا وکیل نہیں ہوں۔جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی کے بیان پر ریمارکس دیئے کہ چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس سمیت دیگر فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کن باتوں پر ہوسکتی ہے اس پر بات کرنا چاہتا ہوں، مخصوص نشستوں کیخلاف نظرثانی درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں، نظرثانی کیلئے فیصلے میں غلطی یا نقائص ہونا ضروری ہیں، موجودہ نظرثانی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔بعدازاں عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں گے۔
