اسلام آباد (آواز نیوز) سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز تبادلہ کیس میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی درخواست کو میرٹ پر مسترد کیا جائے جبکہ دیگر درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کیا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی اور ان ججز کو نئے حلف کی بھی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔جسٹس شکیل احمد نے سوال اٹھایا کہ سیکرٹری لاء نے ٹرانسفرنگ ججز کی حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ ایڈوانس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹیفکیشن میں ابہام نہ ہو، اس لیے وضاحت دی گئی۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ججز کی سنیارٹی کا تعین کیا اور وہ اس میں مکمل طور پر آزاد تھے، چار ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز اور رجسٹرارز کی رپورٹس میں ججز کے تبادلے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے کو درخواست گزار وکلاء نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا، اور کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلے کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے کیا استدعا کی تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کے دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی تھی، جسٹس مظہر نے کہا کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلاء نے تمام باتیں نہیں بتائیں۔
ججز ٹرانسفرز کا طریقہ واضح، ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی، ایگزیکٹو کو نہیں: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے آئین کے آرٹیکل 200 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفرز کا طریقہ اس آرٹیکل میں واضح ہے اور اس پر ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی ہے، ایگزیکٹیو کو نہیں، ججز کے ٹرانسفر کے وقت تمام چیف جسٹسز نے اپنی آمادگی ظاہر کی تھی تاہم جسٹس صلاح الدین نے اعتراض کیا کہ سینیارٹی کے معاملے پر کسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گئی، اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ سنیارٹی کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جسے چیف جسٹسز کے علم میں لایا جاتا، اور یہ تعین اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس کا اختیار تھا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ ججز کے ٹرانسفر کے حوالے سے کون سا اصول اپنایا گیا اور کیوں جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے چنا گیا؟ انہوں نے نشاندہی کی کہ جسٹس ڈوگر لاہور ہائیکورٹ میں سنیارٹی میں 15ویں نمبر پر تھے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے نمبر پر آ گئے۔جسٹس صلاح الدین کا کہنا تھا کہ دوسرے ہائیکورٹس سے ججز ٹرانسفر ہو کر آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سنیارٹی طے کرنے کا اختیار نہیں تھا، جبکہ اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو چکے تھے، اس لیے چیف جسٹس ہی مجاز تھے۔جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ ٹرانسفر شدہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہیں یا پرانی ہائیکورٹس کے، جسٹس شکیل احمد نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ تین سوالات پر عدالت کی معاونت کی جائے، اگر یہ ٹرانسفرز مستقل ہیں تو ججز کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے ذریعے ہونی چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بلوچستان ہائیکورٹ سے جو ججز ٹرانسفر ہوئے، وہ ایڈیشنل ججز ہیں، اور سوال اٹھایا کہ ان کی کارکردگی کو کون جانچے گا، بلوچستان ہائیکورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ ٹرانسفر کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز انتظامی کمیٹی پر کیا اثر پڑا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 175 اے شامل ہوا مگر آئین سازوں نے آرٹیکل 200 کو نہیں نکالا، انہوں نے کہا کہ یہ قابل قبول نہیں کہ آرٹیکل 175 اے کے بعد ججز کا آرٹیکل 200 پر تبادلہ نہ ہو سکے۔جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ججز کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت عوامی مفاد میں ہوگا، اور پوچھا کہ یہاں ججز کے تبادلہ میں عوامی مفاد کیا تھا کیونکہ نوٹیفکیشن میں اس کا ذکر نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ججز کے ٹرانسفر پر سیفٹی وال لگا ہے۔جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی سیکشن 1 اور 2 کو ایک ساتھ پڑھا جائے اور آیا تبادلہ عبوری ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عارضی تبادلے کی صورت میں اضافی الاونسز ملتے ہیں جبکہ مستقل تبادلہ ہو تو کوئی اضافی الاونس نہیں ملتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ذیلی سیکشن کی زبان واضح نہیں ہے اور نوٹیفکیشن میں یہ ذکر بھی نہیں کہ ٹرانسفر مستقل ہے یا عارضی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرانسفر ججز میں کسی نے عارضی یا مستقل ٹرانسفر کا اعتراض نہیں اٹھایا اور تمام سے مستقل ٹرانسفر کی رضامندی لی گئی تھی۔
آئینی بنچ نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کی تفصیلات طلب کر لیں
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کے منٹس آف میٹنگ بھی طلب کر لیے، جسٹس نعیم اختر افغان نے 17 جنوری اور 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن اجلاسوں کی تفصیلات طلب کیں، جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ان اجلاسوں میں کیا ہوا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 17 جنوری کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو ایڈیشنل ججز کی تقرری ہوئی جبکہ 10 فروری کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی۔جسٹس افغان نے پوچھا کہ کیا 10 فروری کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز لسٹ میں جسٹس ڈوگر بھی شامل تھے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی، وہ لسٹ میں شامل تھے مگر ان کے نام پر غور نہیں ہوا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی، آئندہ سماعت پر منیر اے ملک جواب الجواب دلائل کا آغاز کریں گے۔