سٹی کونسل 2021ء کے پرائمری انتخابات اور پاکستانی و مسلم کمیونٹی کا رجحان

سٹی کونسل 2021ء کے پرائمری انتخابات اور پاکستانی و مسلم کمیونٹی کا رجحان
اس سال نومبر کے انتخابات نیویارک سٹی کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، سٹی و سٹیٹ کے انتخابات کے علاوہ ’’ کیپٹل آف دی ورلڈ‘‘ نیویارک سٹی کے حاکم اعلیٰ یعنی میئر کا الیکشن بھی اسی سال نومبر میں منعقد ہو گا۔ نومبر الیکشن سے پہلے پرائمری انتخابات کی بہت اہمیت ہے۔ چونکہ نیویارک رویتی طور پر ڈیموکریٹ اکثریتی ریاست کہلاتی ہے اس وجہ سے پرائمری انتخابات میں کامیاب امیدواروں کی نومبر الیکشن میں کامیابی یقینی تصور کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سٹی کونسل و میئر کے انتخابات میں کانٹے دار مقابلے ہوتے ہیں۔ پرائمری الیکشن میں ایک ہی جماعت کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے کامیاب امیدوار نومبر انتخابات میں اپنی حریف جماعت ( ری پبلکن یا ڈیموکریٹ) کے مد مقابل ہوتے ہیں۔


اس سال 22 جون کو نیویارک سٹی کے پرائمری انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ اس فیچر میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ان انتخابات میں کتنے پاکستانی یا مسلم امیدوار حصہ لے رہے ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کا الیکشن کے حوالے سے کیا رجحان ہے۔ ان میں انتخابات کے حوالے سے کس قدر شعور ہے ، عام طور سے پرائمری انتخابات میں ووٹنگ کا رجحان کم ہوتا ہے اور یہی وہ موقع ہوتا ہے جب اقلیتی کمیونٹیز (بشمول پاکستانی و مسلم امریکنز) اپنی اہمیت ثابت کر سکتی ہیں۔ تا ہم پاکستانی کمیونٹی ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی اگرچہ اب اس صورتحال میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابی مہم کو ہی دیکھ لیں کافی عرصہ بعد پاکستانی کمیونٹی میں جوش وخروش پایا جاتا ہے۔ روایتی طور سے پاکستانی کمیونٹی صدارتی انتخابات میں زیادہ متحرک ہوتی ہے۔ سنۂ 2000 سے گزشتہ سال کے صدارتی الیکشن تک پاکستانی کمیونٹی کا جوش و خروش نمایاں رہا۔ تا ہم یہ جوش خروش صدارتی امیدواروں کی حمایت تک محدود ہے۔ ابھی تک پاکستانی کمیونٹی سے بڑے عہدوں خصوصاً ایوان نمائندگان (کانگریس) اور سینٹ کے لئے خاطر خواہ امیدوار سامنے نہیں آسکے۔ نیوجرسی سے آغا افضل دوبارہ کانگریس کیلئے ری پبلکن امیدوار کے طور پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ جبکہ چند سال قبل لانگ آئی لینڈ (نیویارک) سے علی مرزا بھی کانگریس کیلئے امیدوار رہ چکے ہیں تاہم دونوں امیدواروں کو آٹے میں نمک کے برابر ووٹ ملے۔ آغا افضل آخری بار 29 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے جو مجموعی ووٹوں کے بمشکل ایک یا دو فیصد ہونگے۔ ریاستی اور کونسل کی سطح پر امریکہ کے طول و عرض میں متعدد پاکستانی امریکنز الیکشن لڑ چکے ہیں۔ کچھ کامیاب بھی ہوئے مگر پاکستانی امریکنز کی امریکہ میں آبادی کے تناظر میں شرح مایوس کن ہے۔ اب نیویارک سٹی کونسل کے پرائمری انتخابات ہونے والے ہیں ۔ منگل 22 جون کی پرائمری میں محض چند پاکستانی اور مسلم امریکن ہی امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مین ہٹن سے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے لئے عرب نژاد امریکن ابوشی تہانی اور سٹی کونسل کیلئے کوئنز (نیویارک) سے جواں سال فاطمہ باریاب امیدوار ہیں۔ اس بات سے قطع نظر دونوں کے چانسز ہیں یا نہیںکم سے کم وہ الیکشن کے عمل میں حصہ تو لے رہی ہیں۔ جو یقینا دوسرے پاکستانی و مسلم امریکنز کیلئے قابل تقلید امر ہے۔ مجموعی طور پر 25 سے 30 مسلمان مختلف عہدوں کے لئے الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں اکثریت بنگلہ دیشی امریکنز کی ہے۔


برطانیہ اور کینیڈا کے مقابلہ میں امریکہ کے پاکستانی سیاسی و انتخابی عمل سے عموماً لاتعلق رہتے ہیں۔
کینیڈا اور برطانیہ میں بسنے والے پاکستانی تارکین وطن مقامی سیاست میں بہت زیادہ ملوث ہیں۔ خصوصاً برطانیہ میں پاکستانی وہاں کی سیاست میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ برطانیہ کی تاریخ میں پہلے وفاقی وزیر داخلہ ساجد جاوید کا تعلق پاکستان سے تھا۔ دنیا کے چند بڑے میٹرو پولیٹن شہروں میں سے ایک لندن کے میئر صادق خان نہ صرف پہلے پاکستانی نژاد برطانوی میئر ہیں بلکہ وہ اس اہم ترین عہدے تک پہنچنے والے پہلے مسلمان بھی ہیں اس کے علاوہ برطانوی پارلیمنٹ کے متعدد اراکین پاکستانی نژاد ہیں۔ مقامی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ان کے علاوہ ہیں۔ برطانوی دارالعلوم میں بھی متعدد پاکستانی منتخب ہو چکے ہیں۔ قصہ مختصر برطانوی سیاست میں پاکستانی نژاد تارکین وطن لازمی جزو بن چکے ہیں۔ اگرچہ کینیڈا میں اس تعداد میں پاکستانی تارکین وطن بہت آگے نہیں گئے۔ جتنا انگلینڈ میں ہیں۔ تا ہم کینیڈا کی سیاست میں بھی پاکستانی کینیڈینز نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ ان دو ممالک کے برعکس امریکہ میں پاکستانی امریکنز اب تک یہاں کی سیاست میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ بدقسمتی سے لوکل اور ریاستی سطح پر بھی پاکستانی امریکنز کہیں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ تعداد اور وسائل کے حوالے سے امریکی پاکستانی اپنا مقام رکھتے ہیں۔ مگر سیاسی طور سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ تا ہم ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستانی امریکنز کی پہلی نسل روزگار اور اپنا مقام بنانے کی تگ ودو میں یہاں کے شہری اور سیاسی معاملات سے قطعی لاتعلق رہے۔ جس کی وجہ سے وہ خود تو امریکہ کی سیاسی زندگی اور انتخابی عمل کا حصہ نہ بن سکے بلکہ اپنی اولادوں اور دوسری نسل کو بھی اس سلسلے میں کوئی شعور و ادراک دینے سے قاصر رہے ہیں۔ تاہم اب امید کی جا رہی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کی تیسری نسل جو فی الحال نوعمری کے دور میں داخل ہو چکی ہے آنے والے برسوں میں ان سے سیاسی و انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لینے کی توقع ہے اور اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں پاسکتانی کمیونٹی کے نوجوان سینٹ و کانگریس تک بھی رسائی حاصل کر سکیں گے۔ اگر چار مسلم امریکنز کیتھ ایلیسن ، آندرے کارسن، رشیدہ طالب اور عمر الہان ایوان نمائندگان تک پہنچ سکتے ہیں تو پاکستانی مسلمان کیوں یہ مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ انتخابی و سیاسی عمل میں حصہ نہ لینے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ 70ء کے اوائل میں امریکہ آنے والے بیشتر لوگ پروفیشنل تھے جنہوں نے یہاں آ کر تمام توجہ اپنا کیئرئیر بنانے اور مقام حاصل کرنے پر توجہ دی۔ 80 اور 90 میں آنے والے امریکی پاکستانی اپنے ساتھ پاکستانی سیاست بھی لیکر آگئے یہی وجہ ہے کہ آج امریکی پاکستانیوں کی ایک معقول تعداد امریکی سیاست پر کم پاکستانی سیاست پر زیادہ توجہ دیتی ہے رہی سہی کسر پاکستانی ٹی وی چینلز نے پوری کر دی۔ بیشتر پاکستانی نیوز چینلز کی وجہ سے پاکستانی انتخابات اور سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو مسلسل جھٹلاتے رہے ہیں کہ پاکستانی سیاست انہیں امریکہ میں کچھ نہیں دے سکتی۔ وہ اور ان کی نسلوں کا مفاد امریکہ سے وابستہ ہے انہیں یہاں کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لینی چاہئے اس بات کے لئے جہاں ہماری کمیونٹی قصور وار ہے وہی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا بھی ذمہ دار ہیں جو حکومت میں ہوں تو امریکی پاکستانیوں کو صرف پاکستان کے کاز کے لئے کام کرنے کو کہتے ہیں۔ اتحاد کا درس دیتے ہیں مگر جب اپوزیشن میں ہوں تو پارٹی بازی شروع ہو جاتی ہے۔ اس رجحان کی ہر ممکن حصول شکنی ہونی چاہئے۔


(نیویارک سٹی میں مسلم و امریکی آبادی اور مقامی سیاست میں شمولیت)
ایک محتاط اندازے کے مطابق نیویارک میں مجموعی طور پر ایک ملین سے زائد مسلمان بستے ہیں جن میں سے 25 فیصد کے لگ بھگ نیویارک سٹی کے باسی ہیں۔ تقریباً 7 سے 8 لاکھ مسلم امریکنز رجسٹرڈ ووٹرز ہیں مگر کسی کو اس بات کا ادراک اور شعور نہیں کہ معلوم کیا جا سکے کہ ان میں پاکستانی ووٹرز کی تعداد کیا ہے۔ کسی بھی ڈسٹرکٹ میں پاکستانیوں کی موجودگی اور یہ کہ کتنے مسلم یا پاکستانی الیکشن لڑ رہے ہیں پتہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس کے لئے فنڈنگ ، نظام کی سہی سوجھ بوجھ ، اور مین سٹریم سیاست سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ کمیونٹی کے مسائل اور ان کی ضرورت کا ادراک ہونا چاہئے مگر بدقسمتی سے ہم درج بالا تمام عوامل سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو کمیونٹی کے پاس کوئی حکمت عملی ہے نہ وژن ہے کہ آخر اسے اتنے بڑے نظام سے کیسے استفادہ کرنا چاہئے۔
(معقول تعداد اور وسائل کے باوجود مسلم اور پاکستانی کمیونٹیز نیویارک سٹی کی سیاست میں کیوں پیچھے ہیں اور لاکھوں رجسٹرڈ ووٹرز کے باوجود الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ اس ضمن میں ہم نے کمیونٹی کے چند متحرک اور فعال رہنمائوں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے، آئیے دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں!)

معوذ اسد صدیقی: سینئر صحافی (بیورو چیف دنیا ٹی وی یو ایس اے) ہمارے ہاں کوئی ایسا سسٹم یا طریقہ کار وضع نہیں ہو سکا کہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کتنے مسلم و پاکستانی امیدوار نیویارک سٹی کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں مین ہٹن (نیویارک) ڈسٹرکٹ اٹارنی کے الیکشن کیلئے عرب مسلم خاتون انسانی حقوق کی علمبردار فعال تہانی ابوشی (Tahanie Aboushi) امیدوار ہیں۔ جبکہ جواں سال فاطمہ باریاب کوئنز (نیویارک) سے سٹی کونسل کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان کے علاوہ کوئنز سپریم کورٹ کی جج کیلئے بنگلہ دیشی امریکن خاتون سومیہ سید بھی میدان میں ہیں۔ معوذ صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم سب کو ان امیدواروں کی حمایت کرنی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی سیاسی نظام میں مسلم و پاکستانی امریکنز کا کردار پہلے سے بہت بہتر ہے۔ مگر مجموعی طور پر ہم اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک تو پہلی نسل روزگار میں مصروف رہی اس دوران وہ اپنے بچوں کو بھی کوئی چیز منتقل نہ کر سکے۔ انتخابات میں حصہ لینا تو دور کی بات ہے ووٹر رجسٹریشن بھی مشکل سے کرتے ہیں۔ ایک اور بڑی وجہ یہ ہے وہ نظام کو نہیں سمجھ سکے کہ سسٹم کام کیسے کرتا ہے اس میں زبان بھی شامل ہے۔ پھر اب تک اس بات کا ادراک نہیں کہ اس سے کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ معوذ صدیقی کا کہنا ہے کہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ حالات پہلے سے کافی بہتر ہیں اس میں سابق صدر ڈونلڈٹرمپ کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے مسلمانوں کو بہت متحرک اور فعال کر دیا ہے۔ اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی امریکن انتخابی نظام میں بہت زیادہ شمولیت اختیار کریں گے۔

(کمیونٹی کی پہلی نسل ابھی تک پاکستانی سیاست میں الجھی ہوئی ہے (کمیونٹی رہنما)
مختصر عرصہ میں پاکستانی کمیونٹی میں فعال کردار ادا کرنے والی ایک ممتاز کمیونٹی لیڈر کا کہنا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے امریکی سیاسی نظام خصوصاً نیویارک سٹی کے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کمیونٹی کی پہلی نسل ابھی تک پاکستانی سیاست میں الجھی ہوئی ہے۔ پاکستانی سیاستدان کیا کہتے ہیں۔ کون الیکشن میں کتنی سیٹیں جیتے گا ہماری کمیونٹی کے بڑوں بلکہ نوجوانوں کوبھی اسی بات میں دلچسپی ہے مگریہاں یعنی نیویارک اور امریکہ میں ان کا اور ان کی نسلوں کا مفاد وابستہ ہے اس کی فکر نہیں ارد گرد کیا ہو رہا ہے اس میں دلچسپی نہیں لیتے یہی وجہ ہے کہ ہم امریکہ کے مرکزی دھارے سے کافی دور ہیں۔ دوسری نسل کو کوئی حقیقی رول ماڈل نہیں مل سکا نہ ہی انہیں ٹھوس ادارے میسر آئے۔ جو انہیں رہنمائی تربیت اور تعلیم دے سکتے کہ امریکی سیاسی نظام میں کیسے وہ امریکی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر مرکزی سیاسی دھارے میں آگے بڑھ سکتے۔ 4 سے 10 افراد کے چھوٹے چھوٹے گروپس اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ’’ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کے مصداق ایسی صورتحال قائم کر دیتے ہیں کہ جو بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرے یا سیاسی عمل میں حصہ لینے کیلئے منصوبہ بندی کرے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یوں ہماری کمیونٹی نظام سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ انفرادی طور پر کوششیں کرنے والے وژن سے عاری ہیں انہیں کمیونٹی کی مدد بھی حاصل نہیں ہوتی۔ مناسب حکمت عملی نہ ہونے اور حقیقی لیڈر شپ کی کمی ہمارے نوجوانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ تھوڑا بہت اس نظام میں کام کر رہے ہیں وہ دوسروں کیلئے مثال بننے کے بجائے اب بھی اپنے اور اپنی تنظیم کے مفاد کیلئے کوشاں ہیں، ان کاکہنا ہے کہ نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر نام نہاد تجربہ کار سیاستدان اور ’’انکلز‘‘ اپنی پست ذہنیت اور ذاتی ایجنڈا کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنے سے روکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں میں کسی نے اس قسم کا ڈیٹا مرتب کرنے پر توجہ نہیں دی کہ جس سے معلوم ہو سکے کہ نیویارک سٹی میں کتنے رجسٹرڈ پاکستانی ووٹرز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی اصل طاقت سے ناواقف ہیں۔ سیاسی نظام میں شامل ہمارے بیشتر لوگ امیدواروں کی حمایت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ تصاویر بنوالیں یا ان کا نام امیدواروں کے ساتھ لیا جائے۔ بعدازاں اگر فلاں امیدوار کامیاب ہو جائے تو اپنے سوشل میڈیا پر ان تصاویر کو پوسٹ کر کے دوسروں پر رعب ڈال سکے انہوں نے کہا کہ مناسب حکمت عملی ، منصوبہ بندی، قیادت وژن اور مقصد سے عاری ہماری کمیونٹی آج بھی وہی کھڑی ہے جہاں 20-30 سال پہلے تھی۔

(کاشف حسین: ڈپٹی پبلک ایڈووکیٹ، بانی ممبر پاکستانی امریکن یوتھ سوسائٹی PAYS)
اس سال نیویارک سٹی میں واحد پاکستانی امریکن امیدوار جواں سال فاطمہ باریاب ہیں جو سٹی کونسل ڈسٹرکٹ 25 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم اور پاکستانی امریکن لیڈر شپ اور تنظیمیں ایک طرف ہیں اور سیاسی عمل میں فعال اور متحرک ایکٹوسٹ اور ایڈووکیٹس دوسری طرف ہیں۔ پاکستانی امریکن ایڈووکیٹس کے اپنے ایجنڈے ہیں اور پاکستانی امریکن رہنمائوں اور تنظیموں کا قطعی الگ ایجنڈا ہے کمیونٹی کے سیاسی و انتخابی نظام میں متحرک نہ ہونے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی امریکن رہنما اور تنظیمیں مختلف سیاسی سٹیبلشمنٹ اور سیاسی نظام کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ بجائے پاکستانی کمیونٹی کے لئے کام کرنے کے ان کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔ کمیونٹی اور کمیونٹی لیڈرز کو سیاسی نظام میں راغب کرنے والے بھی ایسے ہی عناصر کے ہاتھوں نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نظام سے دوری کی ایک بڑی وجہ اتحاد کا فقدان ہے۔ متعدد کمیونٹی رہنما اور تنظیمیں ذاتی اور خود غرضی پر مبنی ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں۔ وہ یہ سب اپنے اوپر کمیونٹی کے اتحاد کا لبادہ اوڑھ کر کر رہے ہیں۔ جو میرے خیال سے ایک بڑی اور بھیانک غلطی ہے اتحاد اور ذاتی مفاد کے لئے الائنس تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ مگر کمیوٹنی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا۔
لٹل پاکستان کے نام سے مشہور کونی آئی لینڈ کے پاکستانی امریکن مقامی انتخابات میں حسدو جلن اور بغض و عناد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یہی وجہ ہے لٹل پاکستان کہلائے جانے کے باوجود ایک بھی پاکستانی آج تک سٹی کونسل یا کسی اور عہدے کے لئے کامیاب نہیں ہو سکا۔ جس نے بھی کوشش کی وہ کمیونٹی میں پائے جانے والی نا اتفاقی اور جلن و حسد کا شکار ہو گیا۔ منتخب عہدیدار متعدد تنظیموں اور رہنمائوں سے سودے بازی کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے کمیونٹی میں کسی ایک امیدوار کی حمایت کیلئے اتفاق رائے نہیں پیدا ہو سکتا اور نتیجہ میں بکھری کمیونٹی انتخابی نظام میں اپنی اہمیت منوانے میں ناکام رہتی ہے۔ کمیونٹی سے باہر لوگوں کو خوف ہوتا ہے اس لئے وہ لٹل پاکستان میں پاکستانی امریکن کا یونائیٹڈ بلاک ووٹ نہیں بننے دیتے۔

(علی رشید ! نوجوان سیاسی رہنما ، بانی پاکستانی امریکن ایڈووکیسی گروپ APAG)
علی رشید نوجوان کاروباری و سیاسی شخصیت میں انہوں نے اپنی تنظیم APAG کے پلیٹ فارم سے مختصر عرصے میں پاکستانی کمیونٹی کو امریکی سیاسی نظام میں متحرک کرنے کی جو کوشش کی ہیں وہ نہ صرف قابل تحسین بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 22 جون کے پرائمری انتخابات میں 20 سے زائد مسلم امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں ایک پاکستانی فاطمہ باریاب ہیں جو سٹی کونسل ڈسٹرکٹ 25 (کوئنز) سے امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی سیاست میں پاکستانی امریکن کی عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین ابھی تک اپنے آبائی وطن (Back Home) کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے بچوں کو مقامی سیاست میں حصہ لینے اور متحرک ہونے کیلئے کسی قسم کا شعور نہیں دیا۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ ان کے بچوں کو پاکستانی سیاست سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں کو شہری معاملات میں بھی حصہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں نہ ہی وہ خود اس اہمیت سے واقف ہیں کہ امریکی سیاسی و شہری نظام میں سرگرم حصہ لینا ان کے اور ان کی نوجوان نسل کیلئے کتنا ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں