’’کیپٹل آف دی ورلڈ ‘‘ نیویارک سٹی کا اگلا حاکم کون! میئر و سٹی کونسل کے پرائمری الیکشن 2021ء

نیویارک سٹی کو نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جہاں اس کا شمار دنیا کے چند بڑے میٹرو پولیٹن شہروں میں سے ایک میں ہوتا ہے۔ وہی اسے کیپٹل آف دی ورلڈ یعنی ’’ بین الاقوامی دارلخلافہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اس سٹی کی مالی حیثیت ہے جہاں دنیا کے دو بڑے سٹاک ایکسچینج نصداق (NASDAQ) اور وال سٹریٹ ہیں۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کیلئے نیویارک سٹی ایک مضبوط گڑھ بھی تصور ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کے علاوہ نیویارک سٹی کو ایک اور لحاظ سے امتیازی حیثیت حاصل ہے اسے دنیا کے چند بڑے ڈائیورس شہروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ جہاں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 40 سے 45 وطن نیویارکرز بیرون ممالک پیدا ہوئے۔ نیویارک سٹی کی موجودہ تاریخ تارکین وطن کے بغیر مکمل نہیں۔ ان گوناں گوْ خصوصیات کی وجہ سے نیویارک سٹی کے حاکم یعنی میئر کو دیگر امریکی میئرز کے مقابلے میں برتری حاصل ہے۔ نیویارک سٹی معیشت کے ساتھ عالمی سیاست کا بھی مرکز ہے۔ تمام ممالک کا مشترکہ ادارہ اقوام متحدہ کا مرکزی ہیڈکوارٹرز نیویارک سٹی میں ہی واقع ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں دنیا بھر کے سربراہان مملک شرکت کرتے ہیں۔ جہاں عالمی ترقی اور تصفیوں کے حوالے سے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ نیویارک سٹی کے میئر اور سٹی کونسل کے انتخابات کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ منتخب میئر اور سٹی کونسل کے کاندھوں پر دنیا کے اہم ترین شہر کے نظم ونسق چلانے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے نیویارک سٹی کونسل اور میئر کے انتخابات میں بڑی دلچپسی لی جاتی ہے۔ چونکہ نیویارک سٹیٹ اور سٹی ڈیموکریٹک اکثریتی ریاست اور شہر ہیں اس وجہ سے نومبر الیکشن سے قبل پرائمری انتخابات اہم ہوتے ہیں اس سال 22 جون کو پرائمری انتخابات ہو رہے ہیں۔ قبل از ووٹنگ اور بیلٹ بذریعہ میل کا آغاز ہو چکا ہے۔ نیویارک سٹی کے میئر کے لئے اس بار نصف درجن سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔ گزشتہ 8 سال سے نیویارک سٹی کا انتظام چلانے والے میئر بل ڈی بلازیو کی جگہ کون لے گا۔ اس کا حتمی فیصلہ تو نومبر میں ہو گا۔ مگر پرائمری الیکشن میں کامیاب ڈیموکریٹک امیدوار غیر سرکاری طور پر آئندہ میئر ہو گا یا ہو گی۔ نومبر الیکشن محض رسمی کارروائی رہ جائے گی۔ میئر کے علاوہ سٹی کونسل اور مختلف عوامی عہدوں کے لئے بھی انتخابات ہو رہے ہیں جن کیلئے زبردست مہم چلائی جا رہی ہے۔

نیویارک سٹی کے میئر کیلئے نصف درجن سے زائد امیدوار میدان میں
ویسے تو نیویارک سٹی کے میئر کے لئے متعدد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں تا ہم بروکلین بورو کے صدر ایرک ایڈمز کو اپنے مدمقابل امیدوار کے مقابلے میں قدرے برتری حاصل ہے۔ اب تک کے پول سروے کے مطابق ایرک ایڈمز اپنے قریب ترین حریفوں اینڈریو یانگ اور کیتھرائن گارشیا(Kathryn Garcia) سے 6-7 پوائنٹس ہی آگے ہیں۔ ایرک ایڈمز کے علاوہ یو ایس آفس مینجمنٹ کے سابق ڈائریکٹر شان ڈونوون (Shaun Donovan)، سٹی گروپ کے سابق ایگزیکٹو رے میگوائر (Raymond Mcguire) ایک غیر منافع بخش تنظیم کی سابق سربراہ ڈیان مورالس (Dianne Morales) نیویارک سٹی کمپٹرولر سکاٹ سٹرنگر ، سابق صدارتی امیدوار اینڈریو یانگ (Andrew Yang) نیویارک سٹی سینٹی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ کی سابق کمشنر کیتھرائن گارشیا (Kathryn Garcia) ، بل ڈی بلازیو کی سابقہ کونسل مایا ولی (Maya Willey) قابل ذکر ہیں، ان کے علاوہ کچھ اور امیدوار بھی میدان میں ہیں مگر ان میں سے کچھ مہم ترک کر چکے ہیں اور دیگر واجبی سی کوشش کر رے ہیں تا ہم مئی 2021ء تک ڈیموکریٹک پرائمری کیلئے 13 جبکہ ری پبلکن پارٹی کی پرائمری کے لئے دو امیدوار کی حیثیت سے کوالفیائی کر چکے تھے۔

(نیویارک سٹی کونسل اور میئر پرائمری میں پہلی بار رینک چوائس ووٹنگ کا عمل )
نیویارک سٹی کونسل اور میئر کے انتخابات میں پہلی بار نئے سسٹم یعنی رینک چوائس کے تحت ووٹ پرائمری ڈالے جائیں گے، اگرچہ اس نظام پر کافی تنقید بھی کی جا رہی ہے تا ہم اس کے حامی اسے ووٹرز کیلئے زیادہ چوائس کے باعث بہتر قرار دے رہے ہیں۔ اس سسٹم کے تحت ووٹرز اپنی ترجیح کی بنیاد پر پانچ امیدواروں کے آگے ترتیب سے نشان لگا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ جن امیدواروں کو سب سے زیادہ ترجیح دیں گے اس کے آگے نمبر اور اسی طرح ترجیحی بنیادوں پر دیگر چار امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ رینک چوائس ووٹنگ یا درجہ بندی پسند ووٹنگ کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ طریقہ ووٹنگ زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو انتخاب لڑنے کا موقع پر فراہم کرے گا۔ اسی طرح ووٹرز کو انتخابی عمل سے منسلک ہونے کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔ یہ نظام عملی طور پر اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ کامیاب امیدوار اکثریتی ووٹرز کے کم از کم دوسرے یا تیسرے نمبر کے انتخابات یا ترجیح تھے۔ جبکہ ماضی میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔

رینک چوائس ووٹنگ کے لئے ووٹوں کا شمار
ترجیحی بنیادوں پر ووٹنگ کا طریقہ کار ووٹرز کو اجازت دینا ہے کہ وہ اپنی پسند اور ترجیح کی بنیاد پر 5 امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ اگر کوئی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر گیا یا کر گئی تو وہ کامیاب قرار پائے گا / پائے گی، کسی نے 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کئے تو دوبارہ الیکشن ہونگے۔ اس کے لئے بورڈ آف الیکشن کم سے کم ایک ہفتہ انتظار کرے گا تا کہ غیر حاضر ووٹوں کا شمار کیا جا سکے۔ پہلے مرحلے میں کمتر ووٹ حاصل کرنے والوں کے ووٹ پہلے دو امیدواروں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔ کسی امیدوار کے 50 فیصد یا زائد ووٹ حاصل کرنے تک انتخابی عمل یا ووٹنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔

(پاکستانی کمیونٹی ماضی کے مقابلے میں زیادہ فعال ہے ) کورل بنے گا
پاکستان کمیونٹی اگرچہ تاریخی طور پر صرف انتخابی عمل میں ہی فعال اور متحرک رہی ہے۔ الیکشن لڑنے کا مرحلہ تو بہت دور کی بات ہے۔ اب تک جتنے بھی پاکستانی الیکشن میں کھڑے ہوئے ہیں انہیں اپنی ہی کمیونٹی سے خاطر خواہ مدد نہیں ملتی اسی وجہ سے انتخابات جیتنا تو دور کی بات ہے چند ووٹ بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ اگرچہ سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لئے الیکشن سال کا انتظار کرنے کی ضرورت ہے، اگرچہ سیاسی عمل کا حصہ بننے کیلئے الیکشن سال کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ تا ہم الیکشن سال کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ انتخابی عمل کا حصہ بننے سے کمیونٹی سٹی کونسل اور دیگر اداروں کی نظروں میں آ جاتی ہے۔ کمیونٹی جس قدر زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالے کی اتنی اہمیت کی حامل ہو گی۔ اس لئے پاکستانی کمیونٹی کو ووٹنگ کے عمل میں ہر صورت حصہ لینا چاہئے۔ جو پاکستانی اگر کسی عہدے کے لئے امیدوار ہیں تو انہیں اپنی اور دیگر کمیونٹیز میں بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے علاقوں میں امیدواروں سے رابطے بڑھائیں۔ عام طور سے الیکشن سال میں امیدوار خود چل کر تمام کمیوٹنی کے پاس جاتے ہیں۔ آپ جسے بھی ووٹ دیں مگر اس بات کا ضرور خیال رکھیں امیدواروں کو اپنی اپنی کمیونٹی کو درپیش اہم ایشوز سے ضرور با خبر کریں۔ آپ جتنا اپنی کمیونٹی کو اجاگر کریں گے امیدوار اتنا ہی آپ کے بارے میں سوچیں گے۔

پاکستانی کمیونٹی میئر کیلئے کسی ایک امیدوار پر متفق نہ ہو سکی
اگرچہ پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت خصوصاً بروکلین کے پاکستانی امریکنز بروکلین بورو کے سابق صدر ایرک ایڈمز کی حمایت کر رہے ہیں۔ مگر دیگر علاقوں خصوصاً کوئنز، مین ہٹن، سٹیٹن آئی لینڈ اور برونکس میں پاکستانی اس حوالے سے مکمل طور پر بٹے ہوئے ہیں۔ بیشتر پاکستانی تنظیمیں یا انفرادی حیثیت میں ایرک ایڈمز کی حمایت کا علان کر چکے ہیں۔ تا ہم کمیونٹی کی چند اہم اور نمائندہ تنظیمیں کیتھرائن گارشیا، مایا ولی اور سکاٹ سٹرنگر کی بھی حمایت کر رہی ہیں۔ سٹی کمپٹرولر سکاٹ سٹرنگر(Scott Srtinger) سکینڈل سے پہلے پول سروے میں اپنے دیگر حریفوں کے مقابلے میں کافی آگے تھے۔ مگر 20 سال قبل ایک سکینڈل نے محض 15 منٹ میں ان کی 15 مہینوں سے جاری مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ سکاٹ سٹرنگر اب بھی میدان میں ہیں۔ تا ہم سروے میں کافی پیچھے ہیں۔ بی بی جان ٹیکس اکائونٹنگ کی سربراہ بازہ روحی ، بروکلین ایمرج کے ذکریا خان اور ان کی ٹیم اور کچھ دیگر مسلم و پاکستانی تنظیمیں اب بھی ان کے ساتھ ہیں، امریکی پاکستانی نوجوانوں کی نمائندہ تنظیم امریکن ، پاکستانی ایڈووکیسی گروپ (APAG) جس نے پہلے سکاٹ سٹرنگر کی حمایت کی مگر ان کے سکینڈل کے بعد دیگر پاکستانی اور مسلم تنظیموں اور افراد کی طرح APAG کے سربراہ علی رشید نے اپنی ٹیم کی مشاورت سے نیویارک سٹی کے سینٹی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ کی سابق کمشنر کیتھرائن گارشیا (Kathryn Garcia) کو انڈورس کر دیا ہے۔ کیتھرائن گارشیا پول سروے میں کبھی دوسرے کبھی تیسرے نمبر پر ہوتی ہیں۔ پاکستانی امریکن کمیونٹی کی ایک اور اہم تنظیم امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی (APPAG) نے ایک اور خاتون امیدوار مایا ولی (Maya Willey) کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ علی مرزا کی سربراہی میں کمیونٹی کے ایک دوسرے گروپ نے ایک قدرے غیر معرف امیدوار ڈایان موریلز (Dianne Morales) کی حمایت کا اعلان کیا ہے، اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ایک تقریب میں کمیونٹی کے ایک گروپ نے ڈایان موریلز کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں ڈایان موریلز کی حمایت کا اعلان کیا گیا، ایرک ایڈمز کی حمایت کے حوالے سے کمیونٹی کے تقسیم ہونے کی بنیادی وجہ ان کا فلسطین کے مقابلہ میں اسرائیل کے حق میں بیان نے پاکستانی و مسلم کمیونٹیز کو ناراض کر دیا اور محض ایک دن قبل تک پاکستانی و مسلم کمیونٹی جو مکمل طور پر ایرک ایڈمز کے حق میں تھے ایک دم تقسیم ہو گئے اور ایرک ایڈمز اس وقت مختلف سروے کے مطابق سب سے آگے ہیں جبکہ کمیونٹی سب کے پیچھے ہیں۔

(مختلف امیدواروں کو ووٹ دینے سے کمیونٹی کو نقصان ہو گا )
پاکستانی کمیونٹی کے مختلف طبقہ فکر کے افراد نے میئر کے الیکشن میں کمیونٹی میں تقسیم پر افسوس کا اظہار کیا ہے، مختلف لوگوں کی آراء سے جو بات سامنے آئی ہے اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کو اس اہم ترین الیکشن میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضروت تھی۔ الیکشن سے قبل کسی ایک امیدوار پر اتفاق رائے ہونا چاہئے تھا۔ لانگ آئی لینڈ سے ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایرک ایڈمز فلسطین ، اسرائیل تنازعہ پر بیان سے پہلے امریکی مسلمانوں کی یکساں پسند اور چوائس بن گئے تھے۔ مگر ان کے بیان کے بعد کمیونٹی کا ایک بڑا طبقہ ان سے ناراض ہو گیا۔ ڈاکٹر وقار کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ایرک ایڈمز کافی عرصہ سے امریکی مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست میں ان کے نکتہ نظر سے ہمیں زیادہ متاثر نہیں ہونا چاہئے۔
کوئنز سے کاروباری شخصیت احمد خان کا کہنا ہے کہ بیک 4/5 امیدواروں کی حمایت سے کمیونٹی کو مجموعی طور پر فائدہ نہیں ہو گا۔ پہلے سکاٹ سٹرنگر پر کمیونٹی متفق ہو رہی تھی ان کے سکینڈل کے بعد ایرک ایڈمز کمیونٹی کا چوائس بنے مگر فلسطین، اسرائیل تنازعہ پر ان کے بیان نے صورتحال ایک دم تبدیل کر دی، احمد خان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کمیونٹی کو ایرک ایڈمز کا ساتھ دینا چاہئے۔ ان حالات میں وہ بہترین چوائس ہیں۔
بروکلین میں شعبہ تعلیم سے وابستہ سمیرا خان کا کہنا ہے کہ ہماری کمیونٹی کا المیہ ہے کہ ہم الیکشن جیسے اہم موقع پر بھی کمیونٹی کے مفاد میں بہتر فیصلہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ نیویارک سٹی کے میئر کا الیکشن امیگرنٹ کمیونٹیز کے لئے خاص طور سے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن کمیونٹی مختلف امیدواروں میں بٹ کر اس موقع پر سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے گی۔
کولمبیا یونیورسٹی میں لاء کے طلب علم احسن شیخ کا کہنا ہے کہ ایک طالب علم کی حیثیت سے انہیں پاکستانی کمیونٹی کے مختلف ایشوز میں تقسیم ہونے پر افسوس ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی پاکستانی اور مسلم کمیونٹیز کو الیکشن جیسے اہم موقع پر متحد ہونا چاہئے۔ مگر بدقسمتی سے پہلے سکاٹ سٹرنگر کے سکینڈل اور پھر ایرک ایڈمز کے مشرق وسطیٰ پر سیای بیان نے کمیونٹی کو تقسیم کر دیا۔ کمیوٹی رہنمائوں کو چاہئے تھا کہ صورتحال کے مطابق کمیونٹی کو یکجا کرنے اور کسی ایک امیدوار پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ برونکس کے عبدالحمید خان کا کہنا ہے کہ سٹی کمپٹرولر سکاٹ سٹرنگر امریکی مسلمانوں اور پاکستانی امریکنز کیلئے قابل قبول بنتے جا رہے ہیں۔ مگر جب وہ تمام پول سروے میں اپنے حریفوں سے آگے تھے۔ مبینہ سکینڈل نے نہ صرف ان کی انتخابی مہم کو دھچکا پہنچایا بلکہ ان کا سیاسی مستقبل بھی دائو پر لگ گیا۔ عبدالحمید خان کا کہنا ہے کہ کمیونٹی کو ایرک ایڈمز کی مشترکہ طور پر حمایت کرنی چاہئے۔
آئی ٹی سے وابستہ شیراز علی کا کہنا ہے کہ کمیونٹی کو چاہئے کہ نیویارکس ٹی کے میئر کیلئے ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جو ان کے حقوق کی ترجمانی کرے۔ تارکین وطن کے اس عظیم شہر میں ہمیں تارکین وطن کے حقوق کا خیال رکھنے والے لیڈر کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایرک ایڈمز موزوں ترین امیدوار ہیں۔
ہائوس وائف بیگم شکیل مرزا کا کہنا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی نا اتفاقی کی وجہ سے آج تک اہم معاملات میں خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ہمیں چاہیے کہ ان آخری دنوں میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں