نیویارک سٹی میں پاکستانی کمیونٹی کے مسائل اور مقامی سیاست میں عمل دخل

نیویارک سٹی میں پاکستانی کمیونٹی کے مسائل اور مقامی سیاست میں عمل دخل

امریکہ میں جو اہمیت نیویارک سٹی کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے شہر کو حاصل نہیں ہے۔ نیویارک سٹی کو ”کیپٹل آف دی ورلڈ “ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کی شناخت ” معاشی گڑھ“ یا ” کیپٹل حب“ کے طور سے بھی مشہور ہے۔ دنیا کی چند بڑی سٹاک مارکیٹس میں شامل نیویارک سٹاک ایکسچینج اور نصدق (Nasdaq) اسی شہر کی سٹاک مارکیٹس ہیں۔ نیویارک سٹی کی ایک اور بڑی شناخت اس کا ڈائیورس (Diverse) ہونا بھی ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اس شہر میں آ کر بسے ہیں۔ اس وجہ سے نیویارک سٹی کو تارکین وطن کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے اور مختلف ڈیموگرافک جائزوں کے مطابق نیویارک سٹی میں 40 فیصد سے زیادہ افراد امریکہ سے باہر پیدا ہوئے اس تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ دیگر کمیونٹیز کی طرح پاکستانی امریکنز بھی نیویارک سٹی کا اہم حصہ ہیں اور یہاں کی شہری اور ثقافتی زندگی میں پاکستانی کمیونٹی کا بھی اہم کردار ہے۔ جس کے افراد مختلف شعبہ زندگی میں مصروف ہیں۔ دیگر کمیونٹیز کی طرح پاکستانی امریکن بھی نیویارک سٹی میں ہونے والی تبدیلیوں ، پالیسیوں اور حکومتی اقدامات سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ نیویارک کی شہری زندگی میں تارکین وطن ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ امریکی پاکستانیوں کو بھی نیویارک سٹی اور اس کی انتظامیہ کے اقدامات اور اپنے گردو پیش میں ہونے والی پیش رفت کا علم ہونا چاہئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ نیویارک سٹی میں فیصلہ کن اداروں سٹی کونسل میئر اور اس کے تحت چلنے والے دفاتر اور اداروں میں ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہ رہا جائے۔ تمام کمیونٹیز نیویارک سٹی کے انتخابی عمل اور امیدواروں پر گہری نظر رکھی ہیں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نیویارک سٹی کونسل میں منتخب ممبران اور میئر جو اقدامات کرتے ہیں۔ سٹی کونسل میں جو بل منظور ہوتے ہیں اور قوانین بنتے ہیں ان کے اثرات اقلیتی کمیونٹیز پر بھی پڑتے ہیں۔


(یہ سال نیویارک سٹی کے لئے اہم ترین ہے)
اس سال نیویارک سٹی کے عوام کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ رواں سال یعنی 2021ءمیں میئر نیویارک سٹی کے انتخابات ہونے ہیں نیویارک کے شہری 8 سال بعد نئے میئر کا انتخاب کریں گے۔ موجودہ میئر بل ڈی بلازیو اپنی 8 سالہ مدت ختم کر کے میئر کے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ نیویارک سٹی کا میئر امریکہ بلکہ دنیا کے اہم ترین شہر کا نظم و نسق چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جو بھی اس عظیم شہر کا میئر بنے گا وہ 5 بوروز پر مشتمل اس عظیم نیویارک سٹی کی ترقی و خوشحالی کا ذمہ دار ہو گا۔ میئر کے الیکشن کے ساتھ سٹی کونسل کے انتخابات بھی ہونگے۔ سٹی کونسل میں بیٹھ کر ممبران اس شہر کو چلانے کیلئے خطیبر بجٹ پاس کرنے اور دیگر اقدامات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سٹی کونسل میں نیویارک سٹی کی تعمیر و ترقی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ نیویارک سٹی کے میئر اور سٹی کونسل کے انتخابات اقلیتی کمیونٹیز کے لئے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں تا ہم اقلیتی کمیونٹیز میں انتخابی سیاست یا ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کا رجحان نسبتاً کم ہے جو نیویارک شہر کے اعتبار سے تشویش کا باعث ہے کیونکہ اندازے کے مطابق آنے والے سالوں میں اقلیتی کمیونٹیز آبادی کے اعتبار سے نیویارک سٹی کی غالب اکثریت ہونگی۔ اس لحاظ سے انہیں یہاں کے معاشرے میں ہر مقام پر نمایاں حیثیت میں ہونا ضروری ہے۔


(پاکستانی امریکنز نیویارک سٹی کی انتخابی سیاست میں زیادہ ملوث نہیں)
پاکستانی امریکن نیویارک سٹی میں معقول تعداد میں بستے ہیں۔ نیویارک کے تمام بوروز خصوصاً بروکلین اور کوئنز میں امریکی پاکستانیز بڑی تعداد میں مقیم ہی۔ برونکس اور سٹیٹن آئی لینڈ میں بھی کمیونٹی معقول تعداد میں ہے۔ تاہم تاریخی اعتبار سے یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی امریکنز عام طور سے انتخابی عمل سے لاتعلق رکھتے ہیں۔ وہ اتنے زیادہ سرگرعمل دکھائی نہیں دیتے جتنی دیگر اقلیتی کمیونٹیز خصوصاً جنوبی ایشیائی امریکنز ، بنگلہ دیشی و انڈین کمیونٹیز فعال ہیں۔ انتخابی عمل اور سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ نہ لینے کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹیز کے ایشوز بھی حل نہیں ہو پاتے۔ اگر پاکستانی امریکنز نچلی سطح سے سیاسی و سوک سرگرمیوں میں حصہ لیں اور فعال کردار ادا کریں گی تو وہ اس عظیم شہر سے اپنا حصہ بھی وصول کر سکیں گی۔
(پاکستانی کمیونٹی کو درپیش اہم ایشوز)
پاکستانی امریکن کمیونٹی کا سب سے بڑا ایشوز یا مسئلہ نیویارک سٹی کی سوک و شہری زندگی میں ان کی مناسب نمائندگی نہ ہونا ہے۔ نمائندگی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستانی امریکنز کی اکثریت نیویارک سٹی کے سیاسی نظام کا حصہ نہیں ہے نہ ہی کمیونٹی کے اکثر ممبران، مقامی سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ دیگر کمیونٹیز کے مقابلے میں سٹی میں اپنا خاطر خواہ حصہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے خواہ وہ تعلیمی اعتبار سے ہو یا صحت کے حوالے سے مراعات دستیاب ہوں۔ عام خیال یہ بھی ہے کہ کمیونٹی کے بیشتر افراد امریکی یا لوکل سیاست میں حصہ لینے کے بجائے پاکستانی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں جو کسی حد تک تو بہتر ہے کہ اپنے بیک ہوم (آبائی وطن) کے سماجی و سیاسی معاملات سے واقفیت رہنی چاہئے.مگر امریکہ میں رہتے ہوئے یہاں کے معاملات میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ سٹی کونسل اور سٹی انتظامیہ تک اپنی آواز پہنچانے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے گراس روٹ لیول پر سیاسی عمل میں حصہ لینا چاہئے۔ ایک اور اہم ایشو اپنی ثقافت اور زبان کا ہے۔ یہاں کے شہری نظام میں دیگر کمیونٹیز نے اپنے اثر و رسوخ سے زبان و ثقافت کی پہچان کروالی ہے اگرچہ کئی ادارے ہیں جہاں پاکستانی کمیونٹی کی زبان یعنی اردو میں سہولتیں دستیاب ہیں۔ تا ہم اب بھی کئی معاملات میں زبان کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی کے سینئر افراد کو اپنی بات آگے پہنچانے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اس کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے اگر پاکستانی کمیونٹی نیویارک سٹی کے شہری و سماجی نظام میں متحرک ہو۔ اس لئے کمیونٹی کے افراد کو زیادہ سے زیادہ سیاسی عمل میں حصہ لینا چاہئے۔ ضروری نہیں الیکشن ہی لڑا جائے اپنے اپنے علاقوں میں امیدواروں کے ساتھ مل کر خود کو متعارف کرانے اور والنٹیئرز خدمات انجام دیکر کمیونٹی کی موجودگی کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔ امیدواروں سے مسلسل رابطے منتخب اراکین و عہدیداروں تک اپنی آواز پہنچائی جا سکتی ہے۔ ووٹ کے ذریعے بھی پاکستانی کمیونٹی اپنے لئے بہت کچھ کر سکتی ہے۔ کیونکہ امریکہ میں ووٹ کی طاقت مسلمہ ہے۔ ایسے امیدواروں کی حمایت کی جائے جو آپ کی آواز سنیں۔ عام طور سے دیگر اقلیتی کمیونٹیز کی طرح پاکستانی کمیونٹی بھی انتخابی عمل میں زیادہ سرگرم عمل نہیں رہتی ہے۔ بلکہ پاکستانی کمیونٹی میں یہ شرح زیادہ ہے۔ یہ رجحان ٹھیک نہیں ہے۔ جو لوگ اپنے آبائی وطن کی سیاست اور وہاں کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں انہیں یہ بات ذہین میں رکھنی چاہئے کہ ان کی اولاد یہی تعلیم و پرورش پا رہی ہے ان کے لئے پاکستان یا ان کے والدین کا جو بھی آبائی وطن ہو اس کی اتنی اہمیت نہیں.ان کیلئے امریکہ اور نیویارک اہم ہے۔ لہٰذا انتخابی و سیاسی عمل اور نیویارک سٹی کے شہری معاملات میں حصہ لینا بہتر ضرویر ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کا ایک اور بڑا مسئلہ نیویارک سٹی کے مختلف اداروں میں انہیں ملازمتوں کے بھرپور مواقع حاصل نہیں۔ اس کی بھی بنیادی وجہ مقامی سیاست اور سٹی ہال میں نمائندگی نہ ہونا ہے۔ ملازمتوں کے حصول اس کیلئے معلومات حاصل کرنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ اکثریت کو نظام سے واقفیت نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا کہ کس ذریعے سے ملازمتوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ وہ اس بات سے بھی لاعلم رہتے ہیں کہ کون سے ادارے ہیں جو ملازمتوں کے حصول میں مدد دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں منتخب نمائندے ان کی بھرپور معاونت کر سکتے ہیں مگر سیاسی نظام میں عدم دلچسپی اور منتخب نمائندوں اور عہدیداروں سے دوری پاکستانی کمیونٹی کیلئے آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے۔ اس کیلئے مناسب تو یہی ہو گاکہ مقامی نظام سمجھا جائے۔ آج کا دور انفارمیشن ٹیکنالوجی سوشل میڈیا کا ہے ان ذرائع سے بھی متعلقہ اداروں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ان سب باتوں کیلئے ضروری ہے کہ کمیونٹی کے درمیان اتفاق اور تال میل ہو۔ ایک دوسرے کی سہی طریقے سے رہنمائی کی جائے۔ اس سلسلے میں ایسے لوگ زیادہ معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ جن کے منتخب عہدیداروں اور نمائندوں سے قریبی روابط ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ کمیونٹی کے مسائل سٹی حکام تک پہنچائیں۔ پاکستانی کمیونٹی کی نوجوان نسل اگرچہ اپنے طور سے یہاں کے تعلیمی نظام کے ذریعے اپنے لئے راستے ڈھونڈ لیتی ہے مگر اس کے باوجود ایسے بے شمار امریکی پاکستانی ہیں جنہیں علم ہی نہیں ہےکہ وہ کیسے اس عظیم شہر میں ان کے لئے جو سہولتیں موجود ہیں ان سے کیسے استفادہ کریں۔


(انتخابی سال میں متحرک اور فعال ہونے کی ضرورت ہے)
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں نیویارک سٹی کیلئے سال 2021ءاہم ترین ہے جہاں 8 سال کے بعد شہر کے نئے حاکم (میئر نیویارک) کا الیکشن ہو گا۔ میئر کے ساتھ ساتھ نیویارک سٹی کے باسی سٹی کونسل اور دیگر عہدوں کیلئے بھی امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔ نومبر الیکشن سے پہلے 22 جون کو پرائمری انتخابات ہونگے۔ اس وجہ سے الیکشن کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ پاکستانی کمیوٹنی کو بھی اس سلسلے میں فعال اور متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سیاسی عمل کا حصہ بننے کیلئے الیکشن سال کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ تا ہم الیکشن سال کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کو انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ جو بھی افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور وہ ابھی تک رجسٹرڈ نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر اپنے ووٹ رجسٹرڈ کرا لینے چاہئیں۔ انتخابی عمل کا حصہ بننے سے کمیونٹی سٹی کونسل اور دیگر اداروں کی نظروں میں آجاتی ہے۔ کمیونٹی جس قدر زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالے گی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہو گی۔ اس لئے پاکستانی کمیونٹی کو ووٹنگ کے عمل میں ہر صورت حصہ لینا چاہئے۔ جو پاکستانی اگر کسی عہدے کے لئے امیدوار ہیں تو انہیں اپنی اور دیگر کمیونٹیز میں بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے علاقوں میں امیدواروں سے رابطے بڑھائیں۔ عام طور سے الیکشن سال میں امیدوار خود چل کر تمام کمیونٹی کے پاس جاتے ہیں۔ آپ جسے بھی ووٹ دیں مگر ایک بات کا خیال رکھیں امیدواروں کو اپنی کمیونٹی کو درپیش اہم ایشوز سے ضرور باخبر کریں۔ آپ جتنا اپنی کمیونٹی کو اجاگر کریں گے اتنا ہی امیدوار آپ کے بارے سوچیں گے۔ انتخابی عمل میں ایک اور چیز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ وہ ہے فنڈریزنگ مہم، اکثر و بیشتر ہماری کمیونٹی کے افراد فنڈریزنگ مہم سے لاتعلق رہتے ہیں مگر یہ بات ذہین نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ووٹ کے ساتھ ساتھ نوٹ یعنی فنڈز کی بھی اہمیت ہے امیدوار یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ کونسی کمیونٹی ان کے لئے زیادہ فنڈز اکٹھے کرتی ہے لہٰذا پاکستانی کمیونٹی کے افراد کو امیدواروں کی فنڈریزنگ تقریبات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔
(تعمیرات، زراعت، ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں پاکستانی کمیونٹی کا خاطر خواہ حصہ نہیں)
نیویارک سٹی میں کنٹرکشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعلیم اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں بے شمار ملازمتیں ہوتی ہیں کنسٹرکشن کے شعبے میں شہر کے درجنوں ادارے تعمیراتی کنٹریکٹ جاری کرتے ہیں۔ مختلف کنسٹرکشن کمپنیاں ان سے فائدے اٹھاتی ہیں اگرچہ پاکستانی کنٹریکٹرز بھی سٹی سے مختلف تعمیراتی معاہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر اکثریت کی رسائی نہیں ہوتی اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی کمیونٹی میں اس حوالے سے شعور پیدا کیا جائے۔ دیگر کمیونٹیز کی طرح وہ بھی مختلف شعبوں میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے مستحق ہیں۔ ایسے پاکستانی امریکن جو سٹی کے محکموں سے واقف ہیں۔ ان کے طریقہ کار کے بارے میں جانتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی مدد کریں۔ انہیں سٹی کی ملازمتیں، کنٹریکٹ اور مراعات دلانے میں ان کی رہنمائی کریں۔ کمیونٹی کو چاہئے اس سلسلے میں منتخب نمائندوں اور انتخابی امیدواروں سے رابطے کریں۔ وہ بھی بھرپور مدد کریں۔ مواقع کی اس سرزمین میں واقعی بہت سے مواقع ہیں۔ صرف نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کمیونٹی بے مقصد باتوں میں الجھنے کے بجائے تعمیراتی سوچ اپنائے اور اس شہر میں جہاں ان کے لئے لاتعداد مواقع اور سہولتیں موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھائے۔


عظیم ایم میاں (سینئر صحافی ، نمائندہ جیوٹی وی، روزنامہ جنگ )
عظیم ایم میاں پاکستانی امریکن کمیونٹی کا ایک بڑا نام ہیں اور وہ کمیونٹی کے اتار چڑھاﺅ کے عینی شاہد ہیں ان کے خیال میں پاکستانی امریکن کمیونٹی کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ کمیونٹی سب سے پہلے یہاں کے سیاسی و انتخابی نظام کا حصہ بنے۔ سوک سوسائٹی میں فعال کردار ادا کرے۔ نیویارک سٹی میں ملازمتوں میں بحیثیت اقلیتی کمیونٹی ، پاکستانی کمیونٹی کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ اس کیلئے کمیونٹی کے بڑوں اور ذمہ دار افراد کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ متعلقہ اداروں اور کمیونٹی کے دریان بہترین رابطہ کار بنیں اور کمیونٹی کو ملازمتوں کے حصول میں مکمل رہنمائی اور تعاون کریں۔ میاں عظیم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی کی ثقافتی شناخت کو تسلیم کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح دیگر اقلیتی کمیونٹیز کی ثقافتی شناخت کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ ان کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اس طرح پاکستانی کمیونٹی کی شناخت بھی تسلیم کی جائے۔ کئی معاملات میں کسی بھی کمیونٹی کی ثقافتی و مذہبی شناخت کو تسلیم نہ کئے جانے سے بھی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایسے حساس معاملات میں شہری انتظامیہ کو بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ سینئر صحافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ میں رہتے ہوئے یہاں کی زبان یعنی انگریزی کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے تاہم چونکہ امریکہ خصوصاً نیویارک ایک ڈائیورس شہر ہے جہاں مختلف رنگ و نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں۔ اس لئے بیشتر کمیونٹیز اپنی زبان کی بھی بھرپور حفاظت کرتی ہیں۔ نیویارک سٹی کے مختلف اداروں میں متعدد اقلیتی زبانوں کو اہمیت دی جاتی ہیں انہیں شہری سہولتیں ان کی زبان میں دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے زبان کے باعث درپیش رکاوٹوں سے نمٹنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس لئے اردو زبان کو بھی دیگر اقلیتی زبانوں کی طرح اہمیت دی جائے۔ بیشتر تعلیمی اداروں میں کئی اقلیتی زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لہٰذا سکولوں میں پاکستانی نژاد طلبا اور والدین کو بھی اردو زبان میں تعلیم دی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ بعض اداروں میں شہری سہولتوں کے بارے میں اردو زبان میں بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ تاہم دیگر اقلیتی زبانوں کی طرح کئی اداروں میں اردو زبان کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس لئے جس طرح دیگر زبانوں میں بذریعہ فون یا کتابچوں (پمفلٹ) کی صورت ہیں ہدایات و معلومات فراہم کی جاتی ہیں اسی طرح اردو زبان میں بھی کتابچے شائع کئے جائیں۔ فون پر اردو زبان میں بھی رہنمائی کی جائے۔

(علی نجمی سوشل ایکٹوسٹ ، اٹارنی )
ممتاز اٹارنی علی نجمی ایک کامیاب اٹارنی کے ساتھ نیویارک سٹی کی سیاسی اور شہری معاملات میں بھی مکمل طور سے شامل ہیں وہ مسلم ڈیموکریٹک کلب آف نیویارک (MDCNY) کے بانی ممبر بھی ہیں اور لوکل انتخابات میں امیدواروں کے حق میں مہم بھی چلاتے ہیں۔ علی نجمی کا کہنا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کیلئے امریکی سیاسی نظام خصوصاً نیویارک کی مقامی سیاست کا حصہ بننا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی کمیونٹی بعض کمیونٹیز کے مقابلے میں کہیں زیادہ پڑھی لکھی اور پروفیشنل افراد پر مشتمل ہے مگر بدقسمتی سے سیاسی و شہری نظام میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے جس کی وجہ سے مقامی سیاستدان، اراکین و عہدیداران اور اداروں میں انکی شناخت مناسب طریقے سے نہیں ہوسکی.اسلئے ضروری ہے کہ پاکستانی کمیونٹی نیویارک کی سیاست میں دلچسپی لے.نیویارک سٹی کے مئیر اور لوکل کونسلوں کے الیکشن انکے لیے اہمیت کے حامل ہیں لہذا انہیں اپنی توجہ مقامی معاملات پر مرکوز کرنی چاہئے اس کے علاوہ کمیونٹی کے اندر اس حوالے سے شعور بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے. جتنا کمیونٹی فعال ہوگی اتنا ہی سیاستدان اور منتخب نمائندے ان پر توجہ دیں گے.اور اسطرح ان کے مسائل حل ہونگے
•نصرت سہیل( ڈائریکٹر : سٹار ٹاک اردو پروگرام)
پاکستانی کمیونٹی کے کیا ایشوز ہیں؟اس حوالے سے ماہر تعلیم نصرت سہیل کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سب سے زیادہ تعداد میں پاکستانی امریکن نیو یارک میں رہائش پزیر ہیں جو کہ تقریبا ہر پیشہ ہائے زندگی سے منسلک ہیں۔ یہاں کنسٹرکشن ورکرز سے لیکر بڑے اور چھوٹے بزنس مین، فارمیسی ٹیکنیشنز سے لیکر لیب اونرز، نرسنگ ایڈز سے لیکر ڈاکٹرز اور میڈیکل اسپیشیلسٹ، ٹیچر ایڈز سے لیکر اسکول ایڈمنسڑیٹر، ٹیکسی ڈرائیور سے لیکر کار ڈیلرز وغیرہ موجود ہیں۔ اسی لئے یہاں ہمارے کمیونٹی اشوز بہت مختلف نوعیت کے ہیں اور اس کی اصل وجہ معاشی درجہ بندی ہے ۔ بروکلین اور کوئینز کمیونٹی جہاں متوسط طبقے کے سروس انڈسٹری سے منسلک لوگ رہتے ہیں وہاں کے ایشوز ویسٹ چیسٹر اور لانگ آئی لینڈ کے مقبلے میں بہت فرق ہیں۔ ویسٹ چیسٹر اور لانگ آئی لینڈ میں ڈاکٹرز، فارمیسی اونرز، انشورنس بزنس اونرز اور مختلف طرح کے بزنس سے تعلق رکھنے والے مخیر لوگ رہتے ہیں۔ یہ بھی بروکلین اور کوئینز کی پاکستانی امریکن کمیونٹی نہ صرف تعداد میں بہت بڑی ہے اور سروس انڈسٹیرز سے منسلک ہیں لیکن کمینٹی افئیرز میں بہت ایکٹو ہے۔ ان کی پرابملز امیگریشن اشوز ، زریعہ معاش میں بہتری اور نئے ملک میں ایڈجسمنٹ وغیرہ ہیں۔ یہاں نان امیگرنٹ پاکستانی بھی بہت زیادہ تعداد میں رہتے ہیں جو کہ اپنے آپ کو فعال شہری بنانے کی کوشش میں محنت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں جاب فئیرز اور کمیونٹی سپورٹ ایونٹس جن میں سٹی آفیشلز کی مدد سے لوگوں کی معاشی اور سماجی بہتری پر کام کیا جاتا ہے۔ جب کہ ویسٹ چیسٹر اور لانگ آئیلینڈ کی کمیونٹی میں پیسے کی فراوانی کی وجہ سے وہاں رہنے والے پرائیویٹ گیٹ ٹوگیدرز اور گانے بجانے کی پرائیویٹ محفلوں کو منعقد کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی آگے بڑھتے رہنے کی تگ ودو انکو مسلسل مصروف رکھتی ہے۔ اور یہاں کمیونٹی پراجکٹس پاکستان کے مختلف کازز کے لئے فنڈ ریزر وغیرہ پر مبنی ہوتے ہیں۔
نوعمر پاکستانی امریکن جو کہ اس نئے وطن میں ہمارا فخر ہیں اور ہر شعبے میں جا کر اپنا نام بنا رہے ہیں معاشی طور پر وہ نئے آنے والوں سے بہت بہتر ہیں۔ ان کا سب سے بڑا اشو اپنی اصلی شناخت کو ڈھونڈنا ہے اور اس موضوع پر ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی امریکن اپنے لئے کوئی ایک خاص بڑا اشو آوٹ لائین نہیں کر پاتے۔ مگر باقی کسی بھی نئے امیگرینٹس کی طرح ریسزم، بچوں کا ویسٹرانئزیشن، جنیریشن گیپ، ڈرگز کی پرابلمز،اسلام وفوبیا وغیرہ کچھ اشوز ہیں جو نیویارک سے وابستہ پاکستانی امریکیوں کو درپیش ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں