جکارتہ (ویب ڈیسک) – انڈونیشیا کے وسطی جاوا کے ایک قصبے میں اسکولوں کے 360 سے زائد طلبہ مضر صحت کھانا کھانے کے بعد بیمار ہوگئے، جس کے باعث حکومت نے اپنا مفت اسکول لنچ پروگرام عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔
طلبہ کو اسکول میں دوپہر کے کھانے کے طور پر ہلدی والے چاول، آملیٹ ربن، تلی ہوئی ٹیمپہ، ککڑی و لیٹش سلاد، سیب اور دودھ دیا گیا۔ کھانے کے کچھ ہی دیر بعد متعدد طلبہ نے پیٹ درد اور دست و قے کی شکایات کیں۔
انتظامیہ کے مطابق کھانے کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیج دیے گئے ہیں تاکہ فوڈ پوائزننگ کی اصل وجہ معلوم کی جاسکے۔
پروگرام معطلی اور حکومتی ردعمل
انڈونیشیا کی حکومت نے کہا ہے کہ 300 سے زائد فوڈ پوائزننگ کیسز سامنے آنے کے بعد یہ پروگرام اس وقت تک معطل رہے گا جب تک لیب ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آجاتی۔ حکومت نے تمام متاثرہ بچوں کے طبی اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ مفت کھانے کا پروگرام رواں سال جنوری میں شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد بچوں میں غذائی قلت اور نشوونما کی کمی کو کم کرنا ہے۔
اربوں ڈالر کا منصوبہ
انڈونیشی صدر کا یہ منصوبہ 28 ارب ڈالر کے بجٹ پر مبنی ہے، جس کے پہلے سال میں تقریباً 4.39 ارب ڈالر خرچ کیے جانے ہیں تاکہ 15 ملین افراد کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ مجموعی طور پر یہ پروگرام ملک کی 280 ملین آبادی میں سے 82.9 ملین افراد کو فائدہ پہنچانے کا ہدف رکھتا ہے۔
تنازعات اور تنقید
یہ پروگرام ابتدا سے ہی سیفٹی پروٹوکولز کی ناکامی اور بجٹ کے دباؤ کے باعث تنقید کی زد میں رہا ہے۔ ناقدین نے کہا ہے کہ مرکزی سطح پر کھانے کی تیاری اور تقسیم میں بارہا فوڈ پوائزننگ کے واقعات پیش آئے ہیں، جس سے بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر وزارتوں کے فنڈز میں کٹوتیوں کے باعث یہ منصوبہ سیاسی اور سماجی بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔