نیویارک: اقوامِ متحدہ کے آزاد تحقیقاتی کمیشن کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ایسے اقدامات کیے ہیں جو بین الاقوامی قانون کے تحت نسل کشی کے زمرے میں آ سکتے ہیں اور اس میں اسرائیلی وزیراعظم، صدر اور وزیر دفاع کو اس واردات کے ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
تحقیقاتی کمیشن، جس کی صدارت جنوبی افریقہ کی سابقہ ہائی کمانر نوی پلے کر رہی ہیں، نے رپورٹ میں واضح شواہد پیش کیے ہیں کہ 2023 میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل نے نسل کشی کے پانچ میں سے چار اقدامات کا ارتکاب کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:
- اسرائیلی فورسز نے شہری آبادی اور ایسے اثاثے جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے، کو نشانہ بنایا۔
- جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے گئے جو مخصوص گروہ کے ارکان کی موت یا تباہی کا سبب بنے — جیسے انفراسٹرکچر کی تباہی، طبی سہولیات تک رسائی روکنا، اور بنیادی امداد، پانی، بجلی اور ایندھن کی فراہمی کو انحصار بنانا۔
- شہریوں کو براہِ راست حملوں، شدید جسمانی و ذہنی نقصان، جبری نقلِ مکانی اور قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا سامنا رہا۔
- رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ دسمبر 2023 میں غزہ کے ایک بڑے فرٹلٹی کلینک پر حملے میں ہزاروں ایمبریو اور سپرم کے نمونے تباہ کیے گئے، جس سے آئندہ نسلوں کے پیدا ہونے پر اثرات مرتب ہوئے۔
رپورٹ نے نشاندہی کی کہ اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات اور سکیورٹی فورسز کے طرزِ عمل سے جو واحد معقول نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا ارادہ نسل کشی کے فعل کی طرف اشارہ کرتا ہے — اور اس سلسلے میں صدر آئزک ہرزوگ، وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو اور سابق وزیرِ دفاع یوو گالینٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے 2021 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مبینہ حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تفتیش کے لیے یہ کمیشن تشکیل دیا تھا۔ رپورٹ اس بنیاد پر بھی زور دیتی ہے کہ جنیوا کنونشن کے تحت کسی عمل کو نسل کشی قرار دینے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مجرم نے یہ سارے اقدامات نسل کشی کے ارادے کے تحت کیے — اور کمیشن کا موقف ہے کہ شواہد اسی نتیجے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔