اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعلیمی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران غیر معمولی صورتحال دیکھنے میں آئی، جہاں جسٹس طارق محمود جہانگیری خود عدالت میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر پر بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا۔
سماعت چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری روسٹرم پر آ گئے، جس پر چیف جسٹس نے وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس جہانگیری عدالت میں موجود ہیں، تمام وکلا بیٹھ جائیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں کیس کا نوٹس صرف تین دن پہلے موصول ہوا، جبکہ قانون کے مطابق پورا ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے چیف جسٹس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف اپیل زیر التوا ہے، اس لیے مفادات کا ٹکراؤ موجود ہے اور چیف جسٹس اس کیس کو نہیں سن سکتے۔
جسٹس جہانگیری نے کہا کہ ان کے مطابق کووارنٹو کی درخواست ڈویژن بینچ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی اور انہیں سنے بغیر جوڈیشل ورک سے روک دیا گیا، جو پاکستان اور بھارت کی جوڈیشل ہسٹری میں نظیر نہیں رکھتا۔ انہوں نے زور دیا کہ سپریم کورٹ نے درخواست کی قابلِ سماعت ہونے کا تعین کرنے کا کہا تھا، مگر بغیر سماعت نوٹس جاری کر دیا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس جہانگیری نے کہا کہ وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ ان کی ڈگری اصلی ہے اور کراچی یونیورسٹی نے کہیں بھی ان کی ڈگری کو جعلی قرار نہیں دیا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کسی دوسرے بینچ کو منتقل کیا جائے اور جواب داخل کرنے کے لیے مناسب وقت دیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار کو مکمل ریکارڈ سمیت طلب کر لیا اور ہدایت کی کہ تمام متعلقہ دستاویزات جسٹس طارق محمود جہانگیری کو فراہم کی جائیں۔ درخواست گزار کی جانب سے کیس روزانہ کی بنیاد پر چلانے کی استدعا کی گئی، تاہم جسٹس جہانگیری نے مزید وقت دینے کا مطالبہ کیا۔
صدر اسلام آباد بار نے مؤقف اپنایا کہ ہر کیس کے لیے قانون ں۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیے کہ انصاف جسٹس جہانگیری کو بھی وہی ملے گا جو کسی اور کو ملتا ہے اور وہ عدالت کے معزز کولیگ ہیں۔ تاہم جسٹس جہانگیری نے مؤقف دہرایا کہ اعتراض والے کیس میں انہیں کام سے روکنا عدالتی روایت کے خلاف ہے اور یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔اور ضابطہ موجود ہوتا ہے اور فوری فیصلہ مناسب نہی









