وفاقی وزیرِ خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو 11 فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کر لیا ہے جبکہ رئیل اسٹیٹ، زراعت، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
سی این این بزنس عربیہ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان نے ایک جامع معاشی استحکام کے پروگرام پر عمل کیا، جس کے مثبت اور قابلِ پیمائش نتائج سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق افراطِ زر جو ایک وقت میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا، اب کم ہو کر سنگل ڈیجٹ میں آ چکا ہے۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ مالیاتی محاذ پر پاکستان نے پرائمری سرپلس حاصل کیا ہے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مقررہ اہداف کے اندر رہا۔ انہوں نے بتایا کہ شرحِ مبادلہ میں استحکام آیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو کر تقریباً ڈھائی ماہ کی درآمدات کے برابر ہو چکے ہیں، جو معاشی مضبوطی کا واضح ثبوت ہے۔
وزیرِ خزانہ نے عالمی سطح پر پاکستان کی معاشی بہتری کے اعتراف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال تینوں عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ اور آؤٹ لک کو اپ گریڈ کیا ہے، جبکہ آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت دوسرے جائزے کی کامیاب تکمیل کے بعد آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے بھی پروگرام کی منظوری دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیش رفت پاکستان کی معاشی پالیسیوں اور اصلاحاتی اقدامات پر عالمی اعتماد کی عکاس ہے۔ ان کے مطابق معاشی استحکام نظم و ضبط پر مبنی مالیاتی اور زری پالیسیوں کے ساتھ ساتھ جامع ساختی اصلاحات کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔
ٹیکس نظام پر بات کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ اصلاحاتی پروگرام کے آغاز پر ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 8.8 فیصد تھا، جو گزشتہ مالی سال میں بڑھ کر 10.3 فیصد ہو چکا ہے اور اسے 11 فیصد تک لے جانے کے لیے واضح لائحہ عمل موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس چوری اور لیکیجز کو کم کیا جا رہا ہے جبکہ ٹیکس انتظامیہ میں افراد، طریقہ کار اور نظام کی سطح پر اصلاحات جاری ہیں۔
توانائی کے شعبے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تقسیم کار کمپنیوں میں گورننس کی بہتری، نجکاری، نجی شعبے کی شمولیت اور گردشی قرضے میں کمی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ٹیرف نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ صنعت کے لیے توانائی کو مسابقتی بنایا جا سکے۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت جی سی سی ممالک کی طویل مدتی معاونت کو سراہتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان اور ان ممالک کے تعلقات امداد سے آگے بڑھ کر تجارت اور سرمایہ کاری کی شراکت داری میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ترسیلاتِ زر پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، جو گزشتہ سال تقریباً 38 ارب ڈالر رہیں جبکہ رواں سال 41 سے 42 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جن میں نصف سے زائد جی سی سی ممالک سے آتی ہیں۔
وزیرِ خزانہ کے مطابق پاکستان توانائی، تیل و گیس، معدنیات، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، فارماسیوٹیکلز اور زراعت جیسے شعبوں میں جی سی سی ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے سرگرم رابطے میں ہے۔ انہوں نے جی سی سی کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے (FTA) پر بھی امید ظاہر کی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل امداد نہیں بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری پر مبنی شراکت داریوں سے وابستہ ہے، جس سے نہ صرف جی ڈی پی بڑھے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔









