عجب شور سنا ہے فیصل ِ شہر پر آج – محمد جمیل گوندل

میری اس شخص سے کافی پرانی شنا سائی ہے، وہ ایک روز اپنی آپ بیتی سنانے لگ گیا، جب میں اپنے گھر کے دروازے کے قریب پہنچا تو ایک کتے نے بھونکے بغیر ہی مجھے کاٹ لیا، اس کی یہ بات سن کر مجھے ایک مشہور شعر یا آگیا ہے؎
جو گرجتے ہوں وہ برستے ہوں ایسا تو کبھی سنا نہیں
یہاں بھونکتا کوئی اور ہے یہاں کاٹتا کوئی اور ہے
تیری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ایک خاموش گو کتا تھا، اگر وہ بھونکنے والا کتا ہوتا تو اس نے کبھی بھی تجھے کاٹنا نہیں تھا، میں نے اسے لقمہ دیا۔ تاحیات کسی بھی انسان کے ساتھ رضا مند نہ ہو نے والے شخص میرے ساتھ متفق ہو گیا تھا۔ شاید اسے حالات نے سلجھا دیا تھا یا پھر کتے کے کاٹے نے اسے زمانے ساز کر دیا تھا، اس کی کہانی ابھی چل رہی ہے، بہرحال وہ کہہ رہا تھا ’’ دوستوں نے مجھے 14 ٹیکے لگوانے کا مشورہ دیا، میں ایک ڈاکٹر کے پاس چلا گیا‘‘ کتے کی طرح ڈاکٹر بھی اس کا محلہ دار تھا، اس نے اسے مشورہ دے دیا، اگر کتا بائولا ہو تو ٹیکے لگوانے ضروری ہیں، اگر اس نے یونہی شوق سے ہی کاٹ لیا ہے تو اس کورس کے تکلف دہ عمل سے گزرنے کی کوشش ضرورت نہیں ہے، چونکہ کتا تمہارے محلہ سے ہی تعلق رکھتا ہے، تم ایسا کرو… اس پر کڑی نظر رکھو، اس کا بغور جائزہ لیتے رہو۔ اگر وہ انبار مل لگے تو انجیکشن لگوا لینا، دوسری صورت میں ٹیکے مت لگوانا، وہ ڈاکٹر کے پاس سے آ کر بستر پر لیٹ گیا، انسانوں کے معاملات تو سہل ہوتے ہیں لیکن کتوں کے معاملات میں شامل ہونا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترداف ہے۔ اسے خبر تھی میرا سارا دن کتے کے تعاقب میں گزرے گا، مجھے کتے کے ساتھ کتا ہونا پڑے گا۔ وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدیٰ برآ ہونے کا سوچ کر جلدی سو گیا، صبح اس کی آنکھ کھلی، اس نے گھر میں پڑا ہوا پرانا اخبار اٹھایا اور خبریں پڑھنے لگ گیا، ایک شہ سرخی پر اس کی نظریں رک گئیں، کوٹ رادھاکشن میں میاں بیوی کو بھٹہ خشت میں زندہ پھینک دیا گیا، یہ خبر پڑھ کر اس کی آنکھوں کے آگے ایک اندھیرا سا چھا گیا تھا، اتنے میں اسے اپنی اپنی ذمہ داری یاد آگئی تھی، کتے کی تلاش میں اسنے اپنے ہائوس کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ وہی کتا اس کے گھر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، وہ کتا اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، اسے یوں لگا جیسے یہ کتا بھی اس جیسے حالات کا شکار ہے، جیسے محلہ کے ڈاکٹر نے اس کتے پر میری ڈیوٹی لگائی ہے، ہو سکتا ہے محلہ کے کیسی ذی فہم اور مدبر کتے نے اس کی ڈیوٹی مجھ پر لگا دی ہو، اس کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا، اس نے آنکھ اٹھا کر دوبارہ کتے کی طرف دیکھا وہ بڑے انہماک کے ساتھ اس کا جائزہ لے رہا تھا، اسے پختہ یقین ہو گیا کتا میری نگرانی کر رہا ہے! لگتا ہے اسے بھی اپنی زندگی عزیز ہے، وہ سوچ رہا ہے جس کی ٹانگ کو میں نے کاٹا ہے، وہ انسان کہیں ابنار مل تو نہیں؟ میرے دوست کو یقین ہو گیا تھا یہ زیرک اور باشعور کتا بائولا نہیں ہو سکتا، وہ اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اندر داخل ہوا تو اخبار کی خبر پھر اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ گوشت پوست کے دو انسانوں کو کوئلے کے سلگتے ہوئے اینٹوں کے بھٹہ میں ڈال دیا گیا، آج ہمیں ماننا پڑیگا کہ ہم میں سے بہت سے انسان بھی اب نارمل ہیں۔ ایک محاورہ زبان زدعام جیسے انسان روزانہ استعمال کرتے تھے، ’’ کہیں کتے کی موت نہ مرجانا‘‘ یہ اور بات ہے کہ ان کتوں کو مارنے والے بھی انسان ہوتے تھے۔ اب انسان کو بھی رذیل سمجھ لیا گیا ہے، کتوں سے برا سلوک کرنے والے اب انسانیت کی تذلیل پر اتر آئے ہیں۔ اب جدید دور میں ایک نئی بات سامنے آئی ہے۔ ایک کتا اپنے اردگرد کے ماحول میں پھیلے ہوئے خطرات کی بو سونگھ کر دوڑتے ہوئے دوسرے کتے سے کہہ رہا تھا ’’ بھاگو بھاگو کہیں انسان کی موت نہ مر جان۔‘‘ ہو سکتا ہے کہ اس کتے نے کسی آدم زاد کے ہاتھوں دوسرے انسان کی تذلیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ تبھی تووہ اپنے ہم نفس کتے سے ہمدردی جتا رہا تھا، ہم تو اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہم نے کبھی کسی کو مرنے سے نہیں بچایا ہم نے تو کبھی کسی کی تشفی کیلئے چند جملے تک بھی ادا نہیں کئے، آج مجھے بلھے شاہ بہت یاد آرہا ہے؎
راتیں جاگیں تے شیخ سداویں
راتیں جاگن کتے تنتھوں اتے
اٹھ بلھایا ہون یار منا لے
کدے بازی لے جان کتے
مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کتے بازی لے گئے ہیں، وہ ہم سے جیت گئے ہیں، ہم آدم زاد کیسے لوگ ہیں، زندہ لوگوں کو آگ میں پھینکنے لگ گئے ہیں، ہم کیسے مدعی ہیں؟ جو اپنی عدالتیں بھی خود لگاتے ہیں، پھر جج بنکر فیصلہ سناتے ہیں اور پھر خود ہی جلاد کا روپ بھی دھار لیتے ہیں۔
کراچی کے علاقہ ملیر میں انسانوں کا عجب سا واقعہ سامنے آیا ہے، دونوں میای بیوی گھر میں رہتے تھے، جب صبح طلوع ہوئی تو ان کے گھر کسی قسم کی سرگوشی کی صدا نہیں آرہی تھی، سائیں سائیں اور خاموشی کی سی کیفیت تھی، بہر حال کرایہ داروں کو تشویش لاحق ہوئی، انہوں نے رشتہ داروں کو طالاع دی، سب نے مل کر انہیں گھر میں تلاش کیا لیکن ان کا نشان تک نہ ملا، میاں بیوی کے دونوں موبائل بھی ٹیبل پر پڑے ہوئے ہیں، گھر کا سامنا پڑا ہے، لیکن گھر کے باسی آنکھوں سے اوجھل ہیں، کافی دیر کی تگ ودو کے بعد کسی نے ڈیپ فریزر کا دروازہ کھولا، دیکھا تو میاں بیوی کی لاشیں اس میں پڑی تھیں۔ پچھلے دنوں چودھری شجاعت حسین نے سچ ہی کہا تھا۔ پچھلے وقتوں میں جب قتل ہوتا تھا تو اندھیری آتی تھی، اب تو پولیس بھی نہیں آتی۔‘‘ وقت ہی تبدیل ہو گیا ہے، بہر حال پولیس کو کال کی گئی، وہ آتو گئی لیکن بڑی دیر سے پہنچی، پولیس نے وقوعہ کی تفتیش کی، ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملزمان میاں بیوی کیلئے اجنبی نہیں ہیں، یہ عزیز و اقارب کا کیا دھرا ہے، یہ مہمان کے روپ میں آنے والے کسی دوست کا کارنامہ ہے، پلیٹس میں کھانا نکلا ہوا ہے۔ تفتیش کے مطابق یہ کھانا ملزمان نے قتل کے بعد کھایا ہے، ان مجرمان نے انہیں قتل تو کر دیا تھا لیکن لاشیں ڈیپ فریزر میں رکھنے سے کیا حاصل ہوا؟ یہ بھی ان کے ابنارمل پن کی نشانی ہے، ان سفاک قاتلوں کو ہم بائولے بھی کہہ لیں تو پھر بھی کوئی حرج نہیں، اگر رات گئے آپ کے ہاں کوئی مہمان آتا ہے تو آپ کے رشتہ داروں یا دوست احباب میں سے کسی نہ کسی کو یہ خبر ہونی چاہئے کہ آپ کسکی تواضح کر رہے ہیں، اس شخص کو بھی خبر ہونی چاہئے کہ اس کے پڑائو کے بارے میں دوسرے لوگ آگاہ ہیں، وہ کوئی ابنارل بھی ہو سکت ہے، وہ تمہارے سونے اور تمہاری دولت کے لالچ میں بائولے کا کردار ادا کرنے سے باز رہے گا، فی امان اللہ؎
پھٹ دلاں دے سیندے نئیں،ٹوپیاں سیندے جاندے او
چھری نہ پھیری نفس تے، دنبے کیتی جاندے او
فرض بھلائی بیٹھے او، نفلاں نیتی جاندے او
دسوناں کچھ حضرت جی، اے کی کیتی جاندے او

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں