اسلام آباد: (آواز نیوز) کمپٹیشن کمیشن نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو پیش کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شوگر سیکٹر نے حکومت کو چینی کی پروڈکشن اور اسٹاک سے متعلق غلط اعداد و شمار فراہم کیے، جس کی بنیاد پر حکومت نے چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی اور ملک میں چینی بحران پیدا ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق، شوگر ایڈوائزری بورڈ نے جون سے اکتوبر 2024 کے دوران گنے کی پیداوار، دستیاب اسٹاک اور چینی کی پیداوار کے حوالے سے جو تخمینے دیے وہ درست نہیں تھے۔ غلط تخمینوں پر فیصلے کے نتیجے میں اسٹاک ضرورت سے کم رہ گئے۔
کمپٹیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر کبیر سدھو نے بریفنگ میں بتایا کہ فیصلہ سازی شوگر ملز ایسوسی ایشن کے فراہم کردہ ڈیٹا پر نہیں بلکہ آزاد اور شفاف ڈیٹا پر ہونی چاہیے۔ کمیشن نے ماضی کے چینی بحرانوں (2008-09، 2015-16، 2019-20) کی وجوہات بھی پیش کیں اور کہا کہ ماضی میں بھی ایکسپورٹ کر کے سپلائی محدود کی جاتی رہی۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 2009-10 کی انکوائری میں کارٹلائزیشن کے واضح ثبوت ملے، مگر 2010 کا فیصلہ تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے 2021 تک اسٹے آرڈر جاری رکھا اور اب کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی جلد سماعت کے لیے کمیشن کی معاونت کرے گی، شوگر سیکٹر کو مکمل ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، اور اس کے بعد کمیشن کا کردار مزید فعال ہوگا۔