غزہ: قابض اسرائیل نے سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیوں کے دوران درجنوں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی پر دوبارہ عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے کے مطابق، جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے بعد سے اب تک 98 فلسطینی شہید اور 230 زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے حماس کے اہداف کے نام پر غزہ میں 120 فضائی حملے کیے، جن میں شہری آبادی، خیمہ بستیوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
خان یونس کے شمال مغربی علاقے اور نصیرات کیمپ پر بھی بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں صرف ایک دن میں 45 فلسطینی شہید ہوئے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے حماس کی جانب سے اسرائیلی اہلکاروں پر حملوں کے جواب میں کیے گئے، تاہم حماس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ
“اسرائیل جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے بہانے تلاش کر رہا ہے۔”
درجنوں فلسطینیوں کی شہادت کے بعد اسرائیلی فوج نے نیا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ
“حماس کے اہداف پر کارروائی مکمل ہونے کے بعد غزہ میں جنگ بندی دوبارہ نافذ کر دی گئی ہے۔”
ادھر حماس رہنما خلیل الحیہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ پہنچ گیا ہے، جو مصری حکام کے ساتھ شرم الشیخ میں طے پانے والے سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد کے معاملات پر بات چیت کرے گا۔
اسی دوران امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر جیرڈ کُشنر اور نائب صدر جے ڈی وینس اسرائیل پہنچنے والے ہیں، جہاں وہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقاتیں کریں گے تاکہ امریکی جنگ بندی فریم ورک کو آگے بڑھایا جا سکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ اب بھی جنگ بندی کے حامی ہیں،
“ہم نے جو جنگ بندی کی تھی وہ برقرار ہے، تاہم اسرائیلی حملے جائز ہیں یا نہیں — اس بارے میں مزید معلومات لینی ہوں گی۔”
غزہ میں جاری یہ صورتحال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جنگ بندی کے باوجود فلسطینی شہری سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جبکہ عالمی برادری کی خاموشی پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔