غزہ: بچے خوراک کی کمی سے ہلاک ہو رہے ہیں، ڈبلیو ایچ او

نیویارک ( آواز نیوز)مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے ‘ڈبلیو ایچ او’ کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ سے پہلے شدید غذائی قلت کا شکار پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 0.8 فیصد تھی۔ اب شمالی غزہ میں اس صورتحال سے دوچار دو سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 15.6 فیصد ہو گئی ہے۔ تین ماہ کے عرصہ میں بچوں کی جسمانی حالت میں آنے والے اس بگاڑ کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ بھر میں دو سال سے کم عمر کے 90 فیصد بچوں اور حاملہ و دودھ پلانے والی 95 فیصد خواتین کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ انہیں اس وقت جو خوراک میسر ہے اس میں غذائیت کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔
‘ڈبلیو ایچ او’ اور اس کے شراکت دار گزشتہ چند مہینوں میں پہلی مرتبہ شمالی غزہ کے الشفا ہسپتال میں ایندھن اور دیگر امدادی سامان پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس مدد سے ہسپتال میں زیرعلاج تقریباً 150 مریضوں اور شدید غذائی قلت کا شکار 50 بچوں کی زندگی کو تحفظ ملے گا۔
‘ڈبلیو ایچ او’ کے مشن نے 7 اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ کمال عدوان ہسپتال میں بھی امداد پہنچائی ہے۔
اگرچہ شمالی علاقے میں امدادی ضروریات زیادہ ہیں لیکن پانچ ماہ سے جاری جنگ میں غزہ بھر کے لوگوں کی زندگی اب انسانی امداد پر ہی منحصر ہے۔ غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے 15 لاکھ لوگ انتہائی جنوبی شہر رفح میں پناہ گزین ہیں جہاں خوراک کی قلت اور بیماریاں پھیلنے سے بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہے۔ غزہ بھر میں امداد کی فراہمی میں حائل مشکلات کے باعث گزشتہ دنوں فضا سے امدادی سامان گرانے کی کارروائیاں بھی انجام دی گئی ہیں۔ تاحال اقوام متحدہ ایسی کارروائیوں کا حصہ نہیں ہے لیکن ہنگامی امدادی امور کے لیے اس کے ادارے (اوچا) نے کہا ہے کہ ضرورت مند لوگوں تک مدد پہنچانے کے  لیے ہر طریقے سے کام لیا جائے گا۔
ادارے کے ترجمان جینز لائرکے کا کہنا ہے کہ اس وقت امدادی مقاصد کے لیے زمینی نقل و حمل میں اضافہ ممکن بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر ضروریات پوری ہو سکیں۔ 
حالیہ جنگ شروع ہونے سے پہلے روزانہ تقریباً 500 ٹرک امداد اور تجارتی سامان لے کر غزہ میں آتے تھے لیکن گزشتہ پانچ مہینوں میں ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 133 تک رہی ہے۔ 
‘اوچا’ غزہ کی جانب مزید سرحدی راستے کھلوانے کے لیے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے تاہم ابھی تک اسے کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ 
دوسری عالمی جنگ سے بدتر حالات
موزوں رہائش کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار بالاکرشنن راجاگوپال نے کونسل برائے انسانی حقوق کو بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں تقریباً 80 فیصد گھر اسرائیلی بمباری میں تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں خدمات، نوکریاں، سکول، مذہبی مقامات، یونیورسٹیاں اور ہسپتال منہدم ہو گئے ہیں۔ اس تباہی کی شدت حالیہ برسوں میں شام کے شہر حلب، یوکرین میں میریوپول حتیٰ کہ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے شہر ڈریسڈن اور نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم میں ہونے والی تباہی سے بھی زیادہ ہے ۔دریں اثنا ایک رپورٹ ارک( آواز نیوز) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) نے کہا ہے کہ خواتین بھی غزہ کی جنگ کا نمایاں ہدف ہیں جو روزانہ اس کے تباہ کن اثرات جھیل رہی ہیں۔ادارے کا کہنا ہے اگرچہ اس جنگ میں کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن خواتین اس سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔جنگ میں اب تک 9,000 ہزار خواتین کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ہزاروں افراد تباہ شدہ عمارتوں تلے دبے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگر یہ جنگ جاری رہتی ہے تو موجودہ شرح سے روزانہ 63 خواتین کی ہلاکت ہوتی رہے گی۔ اندازے کے مطابق، اس وقت غزہ میں روزانہ 37 مائیں ہلاک ہو رہی ہیں جن کے گھرانے تباہ اور بچے غیرمحفوظ ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ مہینے ‘یو این ویمن’ کی جانب سے لیے گئے 120 خواتین کے جائزے میں 84 فیصد کا کہنا تھا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد ان کے گھرانے کی خوراک نصف یا اس سے کم رہ گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں